سچی بات تو یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ہر پاکستانی کے دل کی بات کی ہے، کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مختلف شعبو ں میں اصلاحات اور کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے اہم ترامیم کیلئے سرجوڑیں اور آپس میں تعاون اور مفاہمت سے کام لیں، دیکھا جائے تو ان کی یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ سیاست اپنی جگہ ہے تاہم اہم قومی امور پر سیاست کی بجائے مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کے عام شہری کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس میں کمی لانے کیلئے دور رس اقداما ت کی ضرورت ہے۔دوسری طرف وزیر خزانہ صاحب نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ آئندہ تین چار ماہ کے دوران اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں کمی کا امکان نہیں البتہ بعد میں شاید صورتحال میں خوشگوار تبدیلی رونما ہو خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر خزانہ صاحب کو ایک مجبوری کا سامنا ہے اس وقت دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بشمول پاکستان مشکل میں ہیں اورکورونا نے ان کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے اور اور یہ وبا ء اتنی جلدی سے ابھی جانے والی نظر نہیں آرہی شاید انہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے چین، روس اور قازقستان سے 5 ارب ڈالر قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبروں کے مطابق چین سے 3 ارب ڈالر، روس اور قازقستان سے 2 ارب ڈالر قرض ملنے کا امکان ہے۔چین سے 3 ارب ڈالر کا قرض زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے لیا جائے گا اور قازقستان اور روس سے ملنے والے 2 ارب ڈالر ایم ایل ون پر خرچ ہوں گے۔وزارت اقتصادی امور نے قرض لینے کیلئے پلان تیار کر لیا ہے، وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر 3 ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پائے گا۔ امریکہ اور اس کے زیر اثر اداروں کی بجائے روس اور چین سے قرضہ لینے کو اس حوالے سے احسن قدم قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک حقیقی معنوں میں اقتصادی ترقی کے اہداف میں مدد دینے والے ہیں اور امریکہ کی طرح استحصال پر یقین نہیں رکھتے۔تاریخ شاہد ہے کہ روس نے اس وقت پاکستان کو اہم ترین معاشی منصوبے سٹیل ملز کو پروان چڑھانے میں مدد دی جب پاکستان روس مخالف بلاک میں تھا۔ اب تو ماضی کے مقابلے میں روس کے ساتھ تعلقات کافی حد تک خوشگوار ہوگئے ہیں۔ روسی قرضے کو ایم ایل ون کے لئے استعمال میں لایا جائیگا جو سی پیک کا اہم منصوبہ ہے اوراس کا مقصد وسطی ایشیاء تک رسائی کو آسان اور تیز بنانا ہے، اس منصوبے میں روس کی دلچسپی بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اگر یہ منصوبہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو اس سے روس کو بھی گوادر تک رسائی مل جائے گی۔اب بات اگر کی جائے ملک میں جاری کورونا وبا کی تو یہ آزمائش ابھی ختم ہوتی نظر نہیں آرہی،بھلا ہو دنیا کی ریسرچ لیبارٹریوں میں سفید گاؤن میں ملبوس دن رات رات کام کرنے والے سائنسدانوں کا جنہوں نے شبانہ روز کی محنت کے بعد گذشتہ دو برسوں میں کورونا کی ویکسین دریافت کر کے دو کروڑ افراد کو لقمہ اجل ہونے سے بچا لیا۔سو سال قبل سو سال قبل یعنی انیس سو انیس میں بھی انفلوئنزہ کے ہاتھوں دنیا میں دو کروڑ افراد مرے تھے پر اس زمانے میں اس وبا ء کی ویکسین دریافت نہ ہوئی تھی۔ قدرت کا اپنا نظام ہے اگر ایک طرف دنیا کی آبادی بڑھی رہی ہے تو دوسری طرف قدرتی آفات جیسے سیلابوں زلزلوں وغیرہ سے انسان دنیا سے رخصت بھی ہو رہے ہیں ایک ایسا دور بھی تھا کہ ہر سال ہزاروں لوگ ملیریا ٹائیفائیڈ تپ دق ہیضے سے جان کی بازی ہار جاتے تھے۔اس وقت اگر چہ ملک میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں کم ہیں تاہم احتیاط نہ کی گئی تو لہر میں شدت آسکتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایات اور ایس اوپیز پر عملدرآمد میں عوام غفلت نہ برتیں، دوسری صورت میں پھر اگر حالات مکمل لاک ڈاؤن کی طرف گئے تو معمولات زندگی متاثر ہوں گے جس سے سب کو تکلیف ہوگی۔