آواز دے تو کہاں ہے؟

وہ لوگ جو شہر کو چھوڑ کر اس کے دروازوں کے باہر جا مقیم ہوئے ہیں۔وہ روزی روٹی کی خاطر شہر کے دروازوں سے باہر دور تک پھیلی ہوئی آبادیوں کی پیچ در پیچ گلیوں میں جا کر کھو سے گئے ہیں۔ شہر ان کی راہ تکتا رہتا ہے۔پرانا شہر جہاں کی سوندھی سوندھی خوشبو وہ بچپن کی یادیں وہ باتیں وہ ملاقاتیں وہ کھیل جو ہم کھیلتے تھے وہ سب دھیرے دھیرے سلیٹ پر سے اگلے سوالات لکھنے کیلئے مٹا دیئے گئے ہیں۔ وہ ساری چیزیں بھول تو نہیں سکتیں۔ مگر اب کہیں ہیں بھی نہیں۔ شہر ان شہر واسیوں کے لئے اپنے سولہ دروازوں کے باہر ہمہ وقت جھانکتارہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ بیٹے جودھرتی ماں کو چھوڑ کر روزگار او روسعت کے لئے شہر کے باہر اور شہر سے باہر چلے گ ئے وہ دور دیس کی وادیوں سے کب لوٹیں گے۔ گویا شہر کے دروازے تو شہر کی آنکھیں ہیں۔ ان آنکھوں سے یہ شہر ان کو ڈھونڈتا ہے۔جو اپنے تھے مگر اب اجنبی بن کر شہر کے درون سے بیرون منتقل ہو چکے ہیں۔”رواں ہے قلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی دیکھ۔کہ خوشنما تو بہت ہے فصیل باہر کی“(احمد فراز)۔ وہ شہر ارمانوں کا خون لئے اپنے دل میں لہروں کی شکل میں موجود ہے۔مگر اس شہر کو چھوڑ کر جانے والے یا تو سات سمندر پار چلے گئے یا اسی وطن کے دوسرے شہروں میں رین بسیرا کر بیٹھے ہیں۔ پھر یوں ہے کہ دنیا ہی چھوڑ گئے ہیں۔ ہماراتو اس شہر سے ناتا ٹوٹ نہیں سکے گا۔جب تک سانسوں کی مالا پر خالقِ ارض و سما کانام جھپے گا تب تب اس شہر کی یاد دل سے بھلا نے نہیں جائیں گے۔ ہماری بنیادیں اس شہر کے بیرون نہیں اس کے اندرون ہیں۔ اپنے پُرکھوں کی قبریں ہیں وہ نشانیاں ہیں جو ہمیں حسین ماضی میں کھوجانے کی ہمہ وقت دعوت دینے میں مصروف ہیں۔بھلا اس زمین سے ہم کتنے بھی دور چلے جائیں۔ ترقی کی خاطر روپے پیسے کے لئے یا بہ امر مجبوری وسیع رہائش کے اختیار کرنے کو کہیں بھی نکل جائیں۔مگر ہمارا شہر ہمارے ساتھ ہمارے دل کے اندر سینے سے چمٹا ہوا رہتا ہے۔”دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار۔جب ذرا گردن جھکا لی دیکھ لی“۔ وہ شہر کی تصویر ہم کیا دیکھیں گے خود کو ہی دیکھتے لیتے ہیں تو شہر کی بُو باس دل و دماغ کو معطر کر جاتی ہیں ”تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت۔ہم جہاں میں تیری تصویر لئے پھرتے ہیں“۔ ”دل میں ہو درد تودوا کیجئے۔دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے ”(غالب)۔ ”اگرچہ میں ہمہ تن درد ہوں ولے حسرت۔کوئی پوچھے کہ کہاں ہے بتانہیں سکتا“ (حسرت موہانی)۔”جب جسم ہی سار اجلتا ہو تو دامنِ دل کو بچائیں کیا“۔ سینے کے اس درد کو جگالیتے ہیں اور بہت یاد ستائے تو اس قسم کی تحریر لوح پر ثبت کر دیتے ہیں۔یوں غبارِ خاطر نکل جاتا ہے۔مگر پھر سے کچھ دنوں کے بعد آن جمع ہوتا ہے۔یہ عمل اپنے دائرے میں نمو پاتا رہتا ہے۔گھنٹہ گھر کے پاس سے گذریں تو یاد آنے لگتا ہے۔حالانکہ گھنٹہ گھر تو سر کے اوپر جھنڈے کی طرح لہرا رہا ہوتا ہے۔مگر پھر بھی اس کی یاد کو دل سے بھلانے جایا بھی جائے تو گویا اپنی ہستی مٹانے کی کوشش ہوگی۔گھنٹہ گھر ہر گھنٹہ کے بعد صدا دیتا ہے۔ مگر کس کو سنائی دیتی ہے۔اس بازار کے شور شرابے اور شہریوں کی آوت جاوت کی وجہ سے جہاں کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ وہاں اس کی ناتواں آواز اس سے وابستہ لوگوں کو مضبوط اور توانا ہو کر سنائی دیتی ہے اوردامنِ دل کو کھینچتی ہے۔معلوم نہیں ذہنی بیماری ہے یا شاندار ماضی سے الفت کا ہنگام ہے۔یا اپنی روایات کی مضبوط پیوند کاری ہے جو جان وجگر تک پہنچی ہوئی ہے۔رگ و پے میں سرایت کرنے والے شہر ِ گل کی یاد شہر گل فروشاں کے اندر گھومتے پھرتے بھی آتی ہے۔جب وہ گلیاں جو ہم چھوڑ آئے دل کے نہاں خانوں سے نکل کر شعور کی رومیں درِدل پر دستک دیتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔دل کٹ سا جاتا ہے پھٹ سا جاتا ہے۔وہ گلیوں کی باس جو دل کو معطر کئے ہے وہ دوبارہ دوبارہ دماغ کو سرشار کرتی ہے تو دل میں اک لہر سی اٹھتی ہے۔”آواز دے تو کہاں ہے“۔ مگر کہاں وہ شہر کہاں وہ اس شہر کے رہنے والے وہ گلیاں چوبارے جہاں ہم دوبارہ دوبارہ آتے ہیں وہ تو نہیں رہے۔”یوں تو سارا میلہ دیکھا۔ اپنے آپ کو تنہا دیکھا۔ تیرے ملنے کی خواہش میں۔ ہم نے چہرہ چہرہ دیکھا“۔شہر کے گلیوں بازاروں میں گھوم کر بھی شہر کی یاد آئے اور نگاہیں ان کو ڈھونڈیں مگر وہ کہاں۔وہ جو اس شہر کی عظمت کی نشانیاں وہ چہرے۔ جانے کہا ں گئے۔وہ دن وہ لوگ جانے کیا کہتی تھیں وہ ہستیاں۔”زمانے قدر کر ان کی کہ اب شہرِ پشاور میں۔ بزرگوں کی نشانی بس یہی دوچار چہرے ہیں“(نذیر تبسم)۔وہ جو اس وقت ہیں جئیں پھولیں پھلیں کہ جن کو ستارے جان کر ہم اپنی سمتوں کاتعین کر رہے ہیں۔وہ گھر میں ہوں یا تقریب میں ملیں سدا زندہ رہیں او رملتے جلتے رہیں۔وہ لوگ پشاور کی جہاں کی رونق ہے۔