کورونا: حفظ ِماتقدم 

دو فروری دوہزاربائیس: وزارت برائے قومی صحت و خدمات (نیشنل ہیلتھ سروسز) کی جانب سے 15 بڑے شہروں میں کورونا وبا سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے گئے۔ جدول کے مطابق کورونا سے متاثرہ مریضوں کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست مظفر آباد 38.69فیصد‘ گلگت 34.28 فیصد اور پشاور 25.28 فیصد کی شرح سے تیسرے نمبر پر ہے مطلب یہ ہے کہ پشاور میں کئے جانے والے ہر 100 ٹیسٹوں میں سے قریب ساڑھے پچیس فیصد لوگ کورونا سے متاثر پائے جاتے ہیں اور یہ شرح کسی بھی طرح معمولی نہیں بالخصوص ایک گنجان آباد شہر کے لئے جہاں کورونا وبا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور گھر سے باہر کسی بھی ضرورت یا بلاضرورت نکلنے کی صورت چہرہ ماسک سے ڈھانپ کر رکھنے جیسی احتیاط سرفہرست ہے لیکن پشاور کی اکثریت اِن حفظ ماتقدم اقدامات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دے رہی تو یہ بے احتیاطی قابل افسوس بھی ہے اور لائق اصلاح بھی کہ اِس میں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ ہر ”قواعد شکن“ گردوپیش میں دوسروں کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کر رہا ہے اور نہ صرف اپنی جان کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی خطرہ ہے۔دو فروری ہی کے روز نیشنل کمانڈ ایند آپریشن سنٹر (این سی او سی) کی جانب سے کورونا وبا سے متعلق مجموعی قومی صورتحال کا جائزہ بھی جاری کیا گیا جس کے مطابق ملک میں اوسطاً کورونا وبا پھیلنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہے اور ماسوائے چند شہروں میں صورتحال کہیں بھی مثالی نہیں۔ پیش نظر رہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلسل دوسرے دن بھی (یعنی یکم اور دو فروری کے دوران) کورونا وبا پھیلنے کی شرح 10فیصد سے کم رہی تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ پاکستان ’کورونا فری‘ ہو چکا ہے یا پاکستان میں کورونا وبا کی پہلی لہر (فروری دوہزاربیس) جیسی صورتحال دوبارہ پیدا نہیں ہوگی جب کاروباری و تعلیمی سرگرمیاں وبا کے دباؤ کی وجہ سے معطل کی گئیں تھیں اور اِس سے پیدا ہونے والے معاشی و کاروباری بحران کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر انفرادی حیثیت میں ہر شخص نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کورونا احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ کیا تو خدانخواستہ پہلے جیسی وبائی صورتحال پھر سے پیدا ہو سکتی ہے سال دوہزاربیس میں عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ کورونا وبا کی وجہ سے پاکستان میں 9 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے تعلیمی معمولات کو ترک کر دیں گے اور یوں سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یہ پیشگوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے احساس تعلیمی وظائف کے ذریعے بچوں کو دوبارہ سکولوں میں داخل کرنے کی ایک حکمت عملی ترتیب دی ہے‘ جو اپنی جگہ اہم اور اُمید ہے کہ خاطرخواہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ بنیادی بات یہ ہے پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کورونا وبا کا منفی اثر درس و تدریس کے عمل پر بھی مرتب ہوا ہے۔ قومی سطح پر ’آن لائن تدریسی حکمت عملی‘ نہ ہونے کی وجہ سے ہر صوبائی حکومت نے اپنے طور پر جو اقدامات کئے اُن کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے کیونکہ ’آن لائن تدریس‘ کیلئے پیشگی تیاری نہیں کی گئی تھی اور یہ تیاری اب بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔