راستہ بہ راستہ 

یہاں بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ایک گھر میں ایک کمانے والا اور درجن بھر کھانے والے ہیں۔ایسے میں زندگی کو کیسے آسان بنایاجائے۔ حیثیت والے بھی حیران اور کم آمدنی والے بھی پریشان ہیں۔یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ڈگریاں لے کرنکلنے والوں کاایک ہجومِ بیکراں ہے۔مگر ان کے لئے نوکری کہاں ہے۔کاروبار کے لئے سرمایہ کہاں ہے۔حکومت کی تو کوشش بہت ہے۔مگرچونکہ ہمارے ہاں آبادی زیادہ اور رزق روزگار کے مواقع کم ہیں۔ اس لئے ہر ایک کی کوشش ہے کہ کہیں نہ کہیں کھپ جائے کہیں روزگار مل جائے۔اگر دیہاڑی دار مزدور ہے تو اس کی کمائی سے بھی گھر نہیں چلتا اور اگر مستری ہے تو وہ بھی نالاں ہے۔ملک کی معیشت قرضوں میں بال بال جکڑی ہوئی ہے۔ایسے میں ہر تیسواں آدمی باہر کے ملک جانے کا خواہش مند ہے۔جہاں دولت کی ریل پیل ہے۔وہ ملک جن کی کرنسی بھاری بھرکم ہے۔یہ کرنسی کماکر اگر وہی پیسے وطن میں اپنے گھر والوں کو بھیجے جائیں تو ان کی گاڑی چلے۔ایسے میں تو شہریوں کے پاس نہ تو جہاز کے ٹکٹ کا خرچہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس پاسپورٹ بنانے کابندوبست ہے. سو ایسے میں ایک ہی راستہ بچتا ہے۔وہ راستہ چوری کاراستہ ہے۔بلکہ دنیا بھر سے جو غریب معاشرے ہیں۔ان کے باشندے باہر کے ترقی یافتہ ملکوں کو ہجرت کرنے کے چکر میں ہیں۔ایسے میں سادہ لوح شہریوں کو دوسرے نوسرباز چکردینے کے چکر میں پانی کے جہاز میں چکر دیتے ہوئے لا کر اپنے ہی وطن کے کسی ساحل پر اتار دیتے ہیں۔ان سے کہاجاتاہے آپ بحفاظت من چاہی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔اب اس سے آگے آپ کا کام ہے۔شہری آبادی میں چلے جائیں آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جب وہ شہری آبادی کارخ کرتے ہیں تو انھیں ان باشندوں کے درمیان میں جا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو وہی ہمارے ہم زبان ہیں او رہمارے ہی شہر کے لوگ ہیں وہی جگہ ہے جہاں سے ہم چلے تھے۔پھر اس کے ساتھ ساتھ ادھورے پیسے لے کر پورے یقین کے ساتھ ہمسایہ ملک کا بارڈر کراس کروانے والے بھی موجود ہیں۔جو واقعی ایسا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے راستے ایران کی سرحد میں داخل کرواتے ہیں۔ساتھ یہ بھی کہ اپنی اپنی قسمت ہے اگر کوسٹ گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن گئے توہم ذمہ دار نہیں ہیں۔گاڑی کے اندر بیٹھنے کے الگ پیسے ہیں اور گاڑی کے باہر لٹک کر جانے کی کم سہی مگر الگ رقم ہے۔ایسے میں سامنے والے ملک کے سپاہیوں کی گولیوں سے چھلنی بھی ہو سکتے ہیں۔ پھر بارڈر کراس کر واکے ان کو سمندر کے راستے سے ترکی جانا ہوتا ہے۔ایسے کئی لوگ ترکی جا چکے ہیں۔پشاور اور پورے ملک سے اس قسم کی نئے طرز کی امیگریشن کا بازار اوپر اوپر ٹھنڈا او رماٹھا سہی مگراندر اندر بہت گرم ہے۔کتنے تو جان سے گئے جن کے بارے میں کسی کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا۔پھرکئی ایسے ہیں جو ہمسایہ ملک کے ویران ساحل پر گرفتار بھی ہو جاتے ہیں۔پر وہ لوگ وہاں کی جیلوں میں سڑ بھی رہے ہیں۔ یا انھیں رحم کھا کر کسی نہ کسی طریقے سے دوبارہ اپنے وطن بھیج دیا جاتا ہے۔یہ مالی خسارے اور معاشری ابتری تو اب ہمارے معاشرے کاحصہ بن چکی ہے۔ملک کے لئے قرضوں کی واپسی از حد دشوار ہو چکی ہے۔ہر حکومت آتی ہے تووہ پچھلوں کے کھلایا گل صاف ہی نہیں کر سکتے۔اوپر سے نئی سرکار مزید قرض بھی لے لیتی ہے۔ہمارے بعض شہری تو ترکی سے بھی آگے جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔دن رات کے غیر قانونی سفر میں ان کے ساتھ کیا گذرتی ہے کچھ انھیں کو پتا ہوتا ہے۔پھر تو ایسے میں راستہ در راستہ ہوتے ہوتے ترکی سے آگے یونان تک پہنچتے ہیں سوچنا ہے کہ آخر ہمارے لوگ باہر کی طرف رخ کر کے وطن سے کیوں بھاگنا چاہتے ہیں۔ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں اور بھوکے کو کیا چاہئے دو روٹیاں۔مگر یہاں تو دو روٹیوں کے علاوہ اپنی دو کے ساتھ باقی کے بارہ افراد کے لئے بھی چوبیس روٹیاں ایک وقت میں مہیاکرناہوتی ہیں۔جب یہ سب کچھ نہیں ہوپاتا تو غرض گو دیوانہ ہو نے لگتا۔جو سمندر کے پار اُترگئے اور بہ سلامت وہا ں کی آبادی میں رچ بس گئے وہ وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس واپسی کے لئے پاسپورٹ نہیں ہوتا اور وہ اس حالت میں پکڑے جانے کے خوف سے باہر سے پیسہ تو بھیجتے ہیں مگر خود واپس آنا ان کیلئے کسی او ربڑی مصیبت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔