وزیر اعظم کااہم دورہ

وزیر اعظم عمران خان 4 روزہ دورے پران دنوں چین میں ہیں ان کے ہمراہ وفد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرِ خزانہ شوکت ترین، وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر، وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری، مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف، مشیرِ تجارت عبدالرزاق داد اور معاونِ خصوصی چین پاکستان اقتصادی راہداری خالد منصور شامل ہیں۔اس وفد کی ترکیب سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دورے میں کتنے اہم معاملات پر پیش رفت ہوگی۔اگر چہ دورے کا خاص مقصد چین میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت ہے اور چین کے ساتھ ایسے موقع پر یک جہتی کا اظہا رکرنا ہے جب امریکہ اور چند مغربی ممالک نے کھیلوں کے ان عالمی مقابلوں کوبھی چین کے ساتھ اپنی چپقلش کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے ایسے میں وزیر اعظم کے دورے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔جس سے دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹیجک پارٹنرشپ مزید مضبوط ہوگی۔اس دورے میں وزیراعظم چینی صدر شی جن پنگ اور چینی پریمئیر لی کی چیانگ سے اہم ملاقاتیں کریں گے اور اس کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے چینی سرمایہ کاروں کے وفود سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ دورے میں وزیر اعظم کے ساتھ وفد میں موجودوزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ہم چین سے کہیں گے کہ آپ اپنی صنعتیں بیرون ملک لے جارہے ہیں اپنی صنعتیں پاکستان میں بھی لائیں۔وزیر خزانہ کا کہنا ہ کہ یہ دورہ پاکستان کیلئے سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی اہم ہے، کیونکہ سی پیک منصوبے کے تحت ملک میں سپیشل اکنامک زون اب تیار ہیں، اگر چین اسپیشل اکنامک زونز میں پنی انڈسٹری منتقل کرتا ہے تو یہ دونوں کیلئے بہترین ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی چین سے ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان میں بھی مدد فراہم کرنے کا کہیں گے، زراعت ہماری معیشت کا اہم جزو ہے، زراعت سے ہی ہماری معیشت ترقی کرتی ہے۔مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس دورے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر زراعت کے شعبے میں اگر چین کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہوگی کہ قدرت نے ہمیں زراعت کے حوالے سے تمام لوازمات سے فیاضی کے ساتھ نوازا ہے ضرورت ہے تو صرف منصوبہ بندی اور پلاننگ کی۔اب کچھ تذکرہ ہوجائے عالمی حالات کا‘ اگر تو روسی صدر پیوٹن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے سیاسی فہم کا آئندہ چند روز میں مظاہرہ نہ کیا تو یورپ ایک مرتبہ پھر جنگ عظیم کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ روسی صدر سوویت یونین کی نشاط ثانیہ چاہتے ہیں جس کیلئے وسطی ایشیا کے ممالک کو وہ دوبارہ سوویت یونین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یوکرائن پر ان کی یلغار اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے دوسری طرف امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ اگر ایساہو گیا تو امریکہ نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں جو محنت کی ہے اس پر پانی پھر جائے گا۔ جو بائیڈن کی وائٹ ہاوس میں بطور صدر اب تک کی کارکردگی کئی سیاسی مبصرین کے نزدیک مایوس کن ہے وہ اہم قومی اور عالمی امور پر بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔تاریخ دان جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور مسولینی کی فاشزم کو ختم کرنے کیلے امریکہ کو گھسیٹنے میں چرچل کا کلیدی کردار تھا اس میں گولہ بارود اور اسلحہ تو اامریکہ کا چلا تھا پر اس کے پیچھے دماغ چرچل کا تھا لگ رہا ہے جیسے تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے اب کی دفعہ چرچل کے جا نشین روس اور چین کے نئے سیاسی اور عسکری اتحاد کوتوڑ نے کیلئے برطانیہ امریکہ سے ساز باز کر ر ہے ہیں۔