پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا ساتواں سیزن خاطرخواہ سنسنی خیزی سے محروم ہے کہ جو بھی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتی ہے اُس کے لئے مقابلہ جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔ اِس طرح کھیل کی حکمت ِعملی ایک جیسی اور مختلف ٹیموں کی کارکردگی بھی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف دکھائی نہیں دے رہی۔ رواں ہفتے لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کی خاص بات دونوں ٹیموں کی جانب سے صرف تین تین غیر ملکی کھلاڑیوں کا استعمال تھا۔ ویسے استعمال کی بات کریں تو شاہین آفریدی تو ان تین میں سے بھی ایک غیر ملکی کھلاڑی کا استعمال ہی بھول گئے۔ پی ایس ایل میں یہ بات تو عام ہی ہے کہ کپتان کئی مرتبہ ایمرجنگ کھلاڑیوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کرسکے مگر غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا لیکن لاہور کے نئے کپتان شاہین آفریدی نے یہ بھی کرلیا۔ حالیہ مقابلے میں تو ایسا لگا جیسے شاہین جنوبی افریقہ سے آئے ایک غیر معروف کھلاڑی ڈین فاکس کرافٹ کو بالکل ہی بھول گئے۔ فخر زمان نے اس ٹورنامنٹ سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اس بار ٹورنامنٹ میں ٹاپ سکورر بننا چاہتے ہیں اور اب تک کھیلی گئی تین اننگز سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اس کیلئے بالکل تیار ہیں۔ شائقین کرکٹ کے لئے خوشخبری ہے اور وہ اِس بات کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ فخر زمان پچھلے چند ماہ سے شاٹس کے انتخاب کو بہتر سے بہتر کرتے جا رہے ہیں‘ جس کا اب فائدہ بھی مل رہا ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ رنز بنا رہے ہیں۔ فخر کے اوپننگ پارٹنر عبداللہ شفیق بھی اس اننگ میں چند اچھے شاٹس کھیلتے ہوئے نظر آئے اور پھر محمد حفیظ کی عمدہ بیٹنگ اور راشد خان کے کچھ مختلف سے شاٹس نے لاہور قلندرز کو دوسو کے نفسیاتی ہدف تک پہنچا دیا۔ وہاب ریاض پوری اننگ میں باؤلرز کو مسلسل تبدیل کرتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ لاہور قلندرز کو ایک بڑے سکور سے نہ روک سکے۔ آرش علی کو پاور پلے میں فخر زمان کے سامنے لانا وہاب ریاض کا اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوا اور وہیں سے ان کی اننگ میں کچھ ایسی روانی آگئی کہ پھر انہیں روکنا ممکن نہیں رہا۔ فخر زمان اس اننگ کے بعد شان مسعود کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رواں سیزن میں سب سے زیادہ سکور بنانے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ پشاور زلمی کی اننگ کے پہلے اوور میں افغانستان سے آئے حضرت اللہ زازائی شاہین آفریدی کے یارکر کو سکوائر لیگ پر کھیلتے ہوئے بولڈ ہوگئے۔ شاید حضرت اللہ زازائی کو شاید اِس بات کی خبر نہیں تھی کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اننگ کے آغاز میں تو شاہین آفریدی کو سیدھا کھیلنا بھی مشکل ہوتا ہے‘ سکوائر لیگ کی جانب کھیلنا تو ناممکن ہی سمجھئے۔ جب پشاور زلمی کی پہلی وکٹ گری اور حیران کن طور پر حیدر علی کے بجائے حسین طلعت کو بیٹنگ کے لئے بھیجا گیا لیکن وہ بالکل بھی فارم میں نظر نہیں آئے۔ حسین طلعت کی اننگ ایسی تھی کہ ان کے ساتھ وکٹ پر موجود کامران اکمل کی برق رفتار اننگ کے باوجود مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ پچھلے دو میچوں میں لاہور قلندرز کی جانب سے بین ڈنک کیپنگ کر رہے تھے۔ بین ڈنک بیٹنگ میں ناکام ہوئے تو ان کی جگہ ذیشان اشرف کو موقع دیا گیا تھا۔ ذیشان اشرف کو اس میچ میں بیٹنگ کا موقع تو نہ مل سکا لیکن انہوں نے ایک آسان کیچ اور سٹمپنگ کا موقع ضرور ضائع کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو حسین طلعت اور نہ ہی حیدر علی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکے۔ پچھلے تین میچوں کے بعد پاکستان سپر لیگ سیزن سیون میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جیتنا اب ناممکن نہیں لگ رہا۔ اب پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بیٹسمین شاید اس ذہنی دباؤ کا شکار نہ نظر آئیں جیسے پہلے میچوں میں تھے۔ میچ تو پہلے بھی دلچسپ ہی ہو رہے تھے لیکن اب شائقین کے دلوں سے یہ خیال نکل جانا چاہئے کہ ہمیشہ ٹاس جیتنے کا مطلب میچ جیتنا ہوتا ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ باقی ماندہ سیزن سیون کے مقابلے دلچسپ اور حسب توقع سنسنی خیز (مختلف) ثابت ہوں گے۔