دسمبر 2021 میں قومی سلامتی کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں اپنے 36ویں اجلاس میں پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی۔واضح رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی قومی سلامتی سے متعلق امور کو مربوط کرنے کیلئے ملک کا سب سے اعلیٰ ترین مشاورتی اور فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ قومی سلامتی کی پالیسی میں جزیات اور تفصیلات میں پڑے بغیر ایسے راہنما خطوط وضع کئے گئے ہیں جو ایک واضح وژن کاتعین کرتا ہے،اس وژن میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان ان خطوط پر عمل درآمد کے ذریعے جہاں اپنے قومی مقاصد کاحصول ممکن بنایاجاسکتا ہے وہاں اس پالیسی کے ذریعے وہ ضروری اقدامات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں جو وطن عزیز کی مجموعی قومی سلامتی کیلئے ناگزیر اور انتہائی ضروری ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کاکہنا ہے کہ یہ پالیسی جو پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں اعلیٰ سطح پر بنائی گئی پہلی باضابطہ پالیسی ہے چاروں صوبائی حکومتوں حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیرکی سول سوسائٹی، دانشوروں اور طلباء سے ان پٹ حاصل کرنے کے بعد بنائی گئی ہے۔یہ پانچ سالہ پالیسی 2022 سے 2026 تک کے عرصے پر محیط ہوگی۔ قومی سلامتی پالیسی حکومت کی خارجہ، دفاع، اقتصادی اور فیصلہ سازی کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل کیلئے رہنمائی فراہم کرے گی۔ یہ ایک جامع پالیسی ہے جس کا بنیادی مقصدملک کی اجتماعئی سلامتی کو تمام خطرات سے حتی الوسع محفوظ بناناہے۔ بعض نامی گرامی مغربی مفکرین کے مطابق قومی سلامتی معیشت، خوراک، پانی، توانائی، آب و ہوا، دہشت گردی، آبادی میں اضافہ اور پڑوسیوں اور اہم ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت تمام سیکورٹی چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے۔ قومی سلامتی کسی ملک کے قومی مفاد سے وابستہ دستاویز ہے۔یہ قومی مفادات معاشرے کی بنیادی اقدار پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں قوم کی فلاح و بہبود، اس کے سیاسی نظریات کی حفاظت، قومی طرز زندگی، علاقائی سالمیت اور اس کی خودداری وخودمختاری جیسے عناصر شامل ہیں لہٰذاپاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی سے متعلق یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد کیلئے ایک جامع منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ یہ پالیسی پانچ سال کیلئے ہے اور ہر سال کے آخر میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ سیاسی مبصرین اور قومی سلامتی کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نئی پالیسی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی ہے۔دنیا کاہر ملک اپنی قومی سلامتی اور متعلقہ پہلوؤں کو دستاویزی قومی پالیسی کے ذریعے یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے قومی سلامتی کا مقصد اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے تمام اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے۔قومی سلامتی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ بھارت اپنے سائز، آبادی، جغرافیائی محل وقوع، صنعتی ترقی اور فوجی طاقت کی وجہ سے خود کو جنوبی ایشیا کا خودساختہ تھانیدار سمجھتا ہے۔اس صورتحال میں پاکستان کیلئے ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ نہ صرف اس کی ضرورت بلکہ مجبوری بھی ہے۔ بھارت کے ہندوانتہا پسند حکمران تو کجااس کے اعتدال پسند راہنماؤں نے بھی کبھی دل سے برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں کی طویل حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا،اسی طرح قیام پاکستان کی برسرزمین حقیقت کو بھی بھارت نے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود تسلیم نہیں کیا ہے۔پاکستان چونکہ بھارت کی علاقائی چودھراہٹ نہ صرف یہ کہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ وہ بھارت کے ان توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی توجہ اپنی قومی سلامتی پر مرکوز رکھنے پر مجبور رہا ہے۔یہ بھارت کے ان ہی توسیع پسندانہ عزائم کانتیجہ تھا کہ پاکستان کو اپنی آزادی کے تحفظ اورسلامتی کی خاطر 1998 میں بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کرنا پڑے۔یہاں یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ قومی سلامتی کا ہندوستانی تصور چانکیا کے دئیے گئے فلسفے کے گرد گھومتا ہے۔ انہوں نے اپنی ’ارتھ شاستر‘ نامی کتاب جو سیاست اور سلامتی سے متعلق فلسفے پر مبنی ہے میں اس بات کی برملا وکالت کی ہے کہ ہر وہ چیز جو ریاستوں کے مفاد کا تحفظ کرتی ہے وہ کسی بھی اصول یا اخلاقیات سے قطع نظر جائز ہے۔ وہ اس کتاب میں نہ صرف علاقائی توسیع کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان کاکہناہے کہ ایک ریاست کو اپنے پڑوسی ممالک کو دشمن سمجھنا چاہئے اور ان پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔