نہایت اہم معاملہ

اس ملک کے عام آدمی کو یہ جان کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے میں برسرپیکار اس  ملک کے اکثر اپوزیشن رہنماؤں نے ان مظالم پر چپ سادھ رکھی ہے  جو مودی سرکار  کے کارندے بھارت میں بسنے والی مسلم خواتین پر ڈھا رہے ہیں انہوں نے حد عبور کر لی ہے اور وہ بھارت میں بسنے والی مسلم طالبات پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس  ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما مودی سرکار کے خلاف میڈیا میں ایک منظم مہم چلاتے اور ملک کے اندر احتجاجی ریلییاں بھی نکالتے۔حکومت کے خلاف تحریک کی بھی ان کے پاس ڈھیر ساری وجوہات ہوں گی تاہم بھارتی رویے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ نہ کرانے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں۔ نہ جانے ارباب اقتدار کیوں اس ملک میں ایسی قانون سازی نہیں کرتے کہ جس کے تحت ملک میں ممنوعہ بور کے تمام اسلحہ کی نمائش اور اس کے استعمال پر سختی سے پابندی ہو اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ جو ملک میں ممنوعہ بور کے استعمال سے روزانہ کئی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اس کا سلسلہ کبھی ختم  نہ ہوگا۔ عالمی امن کیلئے یہ اچھی خبر ہے کہ یوکرین کے معاملے پر جنگ سے بچنے کیلئے یورپی رہنماؤں کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اوریوکرائن بحران کو حل کرنے کی تازہ ترین سفارتی کوششوں کے تحت جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے رہنماؤں کی برلن میں بات چیت ہوئی ہے۔ یوکرائن بحران کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ایک طرف جہاں امریکہ، روس اور یوکرائن کے رہنماؤں کی ملاقات اور بات چیت ہوئی ہے وہیں دوسری طرف جرمن چانسلر نے برلن میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور پولینڈ کے صدر آندریز ڈوڈا کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔یہ ملاقاتیں ایسے وقت ہوئی ہیں جب یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد روسی افواج اور بھاری ہتھیاروں کی تعیناتی  اور ساتھ ہی مغربی ممالک کی طرف سے یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے جنگ کا خدشہ بڑھ گیا ہے اوردیکھا جائے تو ان خدشات کو ہوا دینے میں مغربی اور امریکی میڈیا پیش پیش ہے حالانکہ روس نے  یوکرائن پر حملے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کی ہے۔  بر لن میں ہونے والی میٹنگ سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور  فرانس کے صدر ماکروں کی ماسکو میں ملاقات ہوئی۔ اس دوران روسی صدرپوٹن نے  فرانس  کے صدرماکروں سے کہا کہ روس کشیدگی میں اضافے کا ذریعہ نہیں بنے گا۔ اس وقت دیکھا جائے ایک طرف اگر کرہ ارض پر انسانوں کو ماحولیاتی تبدیلی اور کورونا سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے تو دنیا کے کئی خطوں میں جنگ کے بادل بھی ساتھ منڈلا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام حکومتیں تنازعات اور باہمی چپقلشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں دنیا کے انسانوں کو درپیش بڑے چیلنجز کا مل کر مقابلہ کریں اور کورونا وباء کے خاتمے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز کرے جس نے عالمی برادری کو جانی اور مالی نقصان سے دوچار کر رکھا ہے۔