گرمی نے اپنے پنجے گاڑھنے شروع کردیئے ہیں۔ کمرے میں ایک آدھ مچھر غوں غوں کرتا ہوامحسوس ہوتا ہے اور گاہے دکھائی دے جاتا ہے۔موسم کی شدت میں سردی کی وہ کاٹ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ مگر کمرے میں ہیٹر اور چولھے جلانے کے عادی قرار دیتے ہیں کہ اب بھی سردی گئی نہیں۔کیونکہ ان کے جسم آ گ کے لمس سے یوں آشنا ہوئے کہ اب ان کو ذرا سی سردی بھی بہت سی ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔ایسے بھی تھے جو برستی ہوئی اوس میں بھی اکہری قمیض میں گھومتے تھے۔مگر جوانی دیوانی ہوتی ہے وہ ایسا کرنے پرقدرت رکھتے ہیں۔مگر ہم جیسوں کے لئے تو اب بچوں والی ناقابلِ برداشت طبیعت چھلانگ لگا کر واپس آگئی ہے۔ذرا سا گریبان کا بٹن بھی کھلاہو تو گھر والیوں سے سو سو کوسنے ملتے ہیں۔موسم معتدل ہو چکا ہے۔بہار اب کے دو ہاتھ دور ہے۔ابھی شاخیں جو بے لباس ہیں وہ فروری کے اینڈ تک سبز لباس کی نئی تہہ پہن کر اپنا بور چھڑکتی ہوں گی۔دھیرے دھیرے سبز پتے اپنے وجود کا اثبات کریں گے اور بہار کو بھرپور دعوت دیتے ہوئے بہار کی آمد کا اعلان کر کے ہر سُو ہریالی مچا دیں گے۔موسم مستانہ ہونے لگا ہے۔اس سرمستی میں دوستوں کے اکٹھ گلگت ناران اور کاغان مری نتھیا گلی اور دیگر اونچے مقامات پر کچھ زیادہ سجنے لگے ہیں۔سفید ریش بھی ہیں تو دل بستگی کی خاطر سیر و سیاحت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔فیس بک پر ان کی آوارہ مزاجی کی ساری کہانی خود ا ن کی زبانی ہر دوست تک پہنچ جاتی ہے۔اب کے مست و رقصاں چلو راہ تکتا ہے ہر خوبصورت مقام چلے چلو بڑھے چلو۔ دیواروں پر چپکلیوں نے اپنی جھلک دکھلاجاوالا گانا گنگنانا شروع کر دیا ہے۔تھوڑے دنوں میں یہ چھ ماہ کی پردہ پوش دوبارہ سے سرِ دیوار دندناتی پھریں گی نہ جائیں گی او رنہ کسی کے ہاتھ آئیں گی۔ چوہے جوسخت سردی میں بعض گھروں میں ناپید ہو چکے تھے پھر سے اپنی اپنی مسند پر آ بیٹھے گے۔وہ عنابی قالین پر بھی دوڑتے پھریں گے اور کچن اور باتھ روم کو ایک ساتھ ہی روندیں گے۔پھر سے بجلی کے بلوں کا چوہابلی کاکھیل شروع ہو جائے گا۔ اب بھی سردی کے عالم میں بجلی کی کھینچا تانی جاری ہے او رحال برا ہے۔مگر جب گرمی نے اپنا زور دکھلانا شروع کردیا تو یہ کھیل اور رچایا جائے گا۔گرمی کا بڑھتا ہوا سیاسی پارہ بھی ہائی سے ہائی کلاس ہو گا اور آنے والے دن سیاسی گرم بازاری کے دن ہیں۔جن کا اندازہ اس موسم کے شناوروں نے اب سے لگا لیا ہے بلکہ اپنی علامتی شرح سے جاری ہے۔ایک آد ھ بارش ہوئی تو ہوئی وگرنہ موسمیات والوں نے دھوم مچا دی ہے کہ فروری توسوکھا گذرے گا۔کوئی کہتا ہے کہ بارش کا موسم ہوگااورموسم خراب ہوگا اور اس خرابی کیلئے ابھی سے بندھ باندھ لیں۔جانے کون سچ کہتا ہے اور کون جھوٹ کو رنگین اور چاندی کے کورمیں لپیٹ کر پیش کرتا ہے۔کیونکہ اب تو ہمارے ہاں سیاسی ہوں یا موسمی ہوں پیش گوئیوں کا بھی مزا نہیں رہا۔ہر ایک کا اپنا راگ ہے جو الاپ رہا ہے۔ہر ایک کا اپنا باجا ہے جو بجا رہاہے۔کوئی سنے تو سنے کوئی نہ سنے تو زور نہیں۔ان کاکام شور مچانا ہے کسی کادل اگراس شورسے اکتا گیا تو ٹھیک وگرنہ اس شور کا جانا تو ٹھہرا نہیں۔ وہ شور ہے کہ ”جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔ تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا“۔موسم کے تغیر و تبدل نے اس حد تک مجبورکر دیا ہے کہ اب جو دوکوٹیاں پہننے والے تھے ایک کوٹی پر اکتفا کر نے لگے ہیں۔دستانے چڑھانے والوں نے دستانے اتار پھینکے ہیں۔یہ وہی ہوا ہے کہ جس سے الرجی تھی اورکھڑکیاں دروازے بند کرنے کو کہا جاتا۔مگر اب اسی ہوا کو راستہ دینے کیلئے کھڑکی کھلی رکھناپڑتی ہے۔ویسے کمرے کی کھڑکی اگرکھلی ہو نہ ہو ذہن کی کھڑکی کو بغیر موسم کی تمیزکے ہمہ وقت کھلا رکھنا چاہئے۔تاکہ اس راستے سے تازہ خیالات آتے رہیں اور زندگی کا پرانا پن ختم ہو جائے۔مگر ہم لوگ تو حبس کے عادی ہیں۔کمرے کی حبس کو دور کرنا چاہتے ہوں گے۔مگر معاشرے میں خیالات کی گھٹن اور حبس کو برقراررکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ جو اہلیت نہیں رکھتے وہ ٹارزن بنے گھوم رہے ہیں۔کون کہا ں مس فٹ ہے اور کہاں اپنے مدار سے نکل کر دوسرے مدار میں داخل ہوا چاہتا ہے اور منہ کے بل گرا چاہتا ہے۔ہواؤں میں خنکیاں چھپی ہوئی ہیں۔ابھی گرما نے سرما کو شکست نہیں دی۔ پیارے ابھی بھی برف کے گولے بنا کر پہاڑی مقامات پرایک دوسرے پر اچھال کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔