اندھا کباڑی

کوئی فروخت کرے تووہ مال جو نایاب ہو اور گاہک اکثر بے خبر ہوں۔جیسے حالی نے کہا ”مال ہے نایاب او رگاہک ہیں اکثر بے خبر۔ شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ“۔”یہ چمپا او رچنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی ۔ تحفہ پھولوں کا یہ انمول لیتا جانا بابو جی بن مول“۔پھر چیز بھی انمول ہو اور کوئی اس کی قدر و قیمت کو نہ سمجھے۔اس پہ کیا تلوار کہ لازمی خریدے۔یہاں تو ہر وہ شئے جو عام خریداری سے ہٹ کر ہے کوئی نہیں خریدنا چاہتا۔”میرے دامن میں تو پھولوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔آپ کانٹوں کے خریدار نظر آتے ہیں“۔ ایک چیز دکانوں کے شوکیس میں سجی نہ ہو اور انمول ہو کر کباڑ میں بیچنے کیلئے پھیری والا گلی میں آئے پھرگول چوک میں کھڑا ہو۔ مگر کوئی اس کومنہ نہ لگائے۔ کباڑ کے ریٹ پربھی نہ خریدے تو سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کیا چارہ ہے۔ یہ مر مٹنے کا مقام ہے اگر وہ کہے میں یہ مفت میں دینا چاہتاہوں۔ کوئی تو ہو جو اس کو لے کر تھام لے۔مگرکوئی آگے نہیں بڑھتا۔کوئی لینا ہی نہیں چاہتا۔پھر وہ اس قدر رعایت کرے کہ وہ مال گاہکوں کے حوالے کرنے کو تیار ہو مگر ساتھ اس کی رقم وہ خود جیب سے گاہکوں کو دینا چاہتا ہو کہ مجھے معاوضہ دے کر یہ مال خرید لو۔ مگر اس اندھے کباڑی سے یہ جنسِ نایاب کوئی خریدتا نہیں۔ پھر تورویا ہی جا سکتا ہے کہ اگر کوئی چیز اس قوم کو مفت میں اور پھر الٹا دکاندار کی طرف سے رقم دے کر بیچی جا رہی ہے۔یہ کوئی آئینہ تو نہیں کہ اس سے گھبراتے ہیں۔فرازنے کیا کہا تھا”یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا“۔ یہ نابینا شہر میں آئینہ بیچنے والی بات ہوئی نا۔وہ جو مال بیچ رہاہے وہ کسی کام کا بھی تو نہیں۔اب کوئی لے کر کیا کرے گا۔ کس کام کے ہیں کس کے کام کے ہیں۔ وہ بھلے چیختا ہی کیوں نہ رہے کہ ”خواب لے لو خواب“۔جن کی آنکھوں میں خواب ہی نہ ہو خواہ وہ کوئی ایک ہو یا بہت ہوں جنھیں قوم کہا جائے۔یہ لوگ خود کس کام کے ہیں۔وہ کباڑی روز چوک تک جاتا ہے اور شام گئے تک صدا لگاتا ہے۔خواب لے لو خواب۔ مگر اس کی آواز کی طرف کسی کی توجہ ہی مرکوز نہیں ہوتی۔جیسے یہ شعر کہ ”صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا۔ سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم“۔اس کی آواز تو صدا بہ صحرا ہوگی۔جسے وہ خود سنے گا مگر دوسرا کوئی تب سنے کہ زندگی کے اس دشت و بیاباں میں دوسرابھی تو ہو۔پھر وہ راہ چلتوں کو خواب لینے پر اصرار کرے اور مجبور کرے اس حد تک کہ مفت دینا چاہے اور کوئی مفت بھی لے تو اپنی جیب سے پیسے دینا چاہے۔فراز نے شاید اسی موقع کو سامنے رکھا ”ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں۔اس تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ“۔خواب کون لیتا ہے اور پھرتکرار تو گاہک کرتا ہے۔ وہ بھی دکاندار کے ساتھ کہ میں کسی نہ کسی طرح یہ مال یہ جنسِ نایاب خرید لوں۔دکاندار اب اتنے بھی فارغ نہیں کہ وہ خود گاہک کے ساتھ تکرار کرنے لگ جائیں۔مگر یہا ں تومعاملہ اور ہے پھر قابلِ غور ہے۔یہ وہ خواب نہیں جو رات کو سوتے میں دیکھے جاتے ہیں‘یہ جینیئس لوگ اکیلے ہی خواب دیکھتے ہیں۔ جیتے جاگتے خواب۔ ان کے خواب انھیں تک محدود ہوتے ہیں۔نہ وہ دوسرے کو دکھا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا دل میں یہ خواہش رکھتا ہے کہ میں بھی یہ خواب دیکھنا چاہتا ہوں۔