ریڈیو کا عا لمی دن 

13فر وری کو ہر سال ریڈیو کا عا لمی دن منا یا جا تا ہے ریڈیو کا دن ریڈیو سے با ہر نہیں آتا، جن لو گوں نے علم، آگہی اور شعور کے سفر میں ریڈیو کو اپنا رفیق سفر بنا یا ہے وہ لو گ فروری کا مہینہ آتے ہی ریڈیو کے عا لمی دن کی فکر میں لگ جا تے ہیں ذرائع ابلا غ کی دنیا میں موجودہ انقلا ب کا سورج طلو ع ہونے سے پہلے ریڈیو واحد ذریعہ ابلا غ ہو ا کر تا تھا ریڈیو سن کر پہاڑی اور میدا نی علا قوں کے ان پڑھ اور ناخواندہ لو گ بھی عا لمی سیا ست پر گفتگو کرنے کے قا بل ہو تے تھے میرے گاؤں میں سکندر با با رہتا تھا وہ آنکھو ں سے معذور ہو چکا تھا ریڈیو پر کرکٹ کی کو منٹری سن کر انہوں نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ‘انگلینڈ‘ جنو بی افریقہ‘سر ی لنکا‘ بھارت اور پا کستا ن کے تما م کر کٹر وں کے ریکا رڈ زبا نی یا د کر لئے تھے۔ وہ آئن بو تھم، مارک وا‘سنیل گواسکر‘ رمیز را جہ‘ عمران خا ن اور دیگر نما یاں کھلاڑیوں کے ریکارڈ فرفر سنا تا تھا ریڈیو کی وجہ سے اشفاق احمد سے لیکر رضا علی عابدی، ثریا شہاب اور سدھو بھا ئی تک نا مور براڈ کا سٹروں کے نا م گاؤں کے ہر ایک فرد کی زبان پر ہو تے تھے ملکہ تر نم نور جہاں، لتا منگیشکر، مہدی حسن اور محمد رفیع کے نا م گاؤں میں ایسے بو لے جا تے تھے جیسے یہ سب ہمارے قریبی پہچان کے لوگ ہوں پھر ٹیلی وژن آیا، پھر سوشل میڈیا کا دور آیا، تفریح اور آگہی کے بے شمار ذرائع ہا تھ آگئے مگر ریڈیو کی اہمیت کم نہیں ہوئی، ریڈیو آج بھی علم و آگہی کا سب سے موثر ذریعہ ہے جو کسان کو کھیت میں، مزدور کو مزدوری کی جگہ پر طالب علم کو ہا سٹل کے کمرے میں، ڈرائیور کو اُس کی گاڑی میں دستیاب ہے جو نہ وائی فائی کا محتا ج ہے نہ ڈیٹا  فورجی‘ تھری جی کا تقا ضا کر تا ہے نہ ریسیور اور ڈش یا انٹینا ما نگتا ہے دنیا کی تاریخ میں پہلی جنگ عظیم کے خا تمے کے بعد اور دوسری جنگ عظیم کے آغا ز سے پہلے یعنی 1919اور 1939کے درمیاں دو عشروں میں دو بڑے کام ہوئے ریڈیو کی نشریات کا آغاز 1920ء میں ہوا یہ اطا لوی سائنسدان مار کو نی کا کما ل تھا اس طرح جر منی کے رائٹ بردران کی ایجا دات مسافر بردار جہا ز کے تجربے کو کا میاب کیا، جیٹ انجن کے ذریعے جنگی جہا ز بھی بن گئے دوسری جنگ عظیم کی تبا ہ کن بمبا ری لندن، ہیرو شیما اور نا گا سا کی پر جہا زوں کے ذریعے ہوئی 1920سے 2022تک 102سال کی مدت گذری اس دوران ریڈیو نے پوری دنیا میں علم اور آگہی کا عظیم انقلا ب برپا کیا بر صغیر پا ک و ہند میں ریڈیو ٹرانسمیٹر اور براڈ کا سٹ سٹیشن 1935ء میں قائم ہوئے یہ عجیب اتفاق ہے کہ دہلی اور لا ہور سے پہلے پشاور میں ریڈیو سٹیشن قائم ہوا، احمدندیم قاسمی اس سٹیشن سے نشریات کا آغاز کر نے کیلئے پشاور آئے اور پشاور میں رہے بر صغیر میں علم و ادب کے جن درخشان ستاروں نے ریڈیو سے کیرئیر کا آغا ز کیا ان میں زیڈ اے بخا ری، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد اور دیگر نامور شخصیات کے نا م آتے ہیں مشہور صدا کار وں میں طا رق عزیز، فردوس جما ل‘ عظمیٰ گیلا نی‘ عبید اللہ بیگ‘ قاضی سرور‘ ضیاء محی الدین‘ طلعت حسین اور ان کے ہم عصروں نے ریڈیو ہی سے اپنا کیرئیر شروع کیا‘ پشتو موسیقی کی دنیا میں نا م کما نے والے گلنا ر بیگم، احمد خا ن‘ خیال محمد اور زرسانگہ نے بھی ریڈیو ہی سے اپنا سفر شروع کیا ریڈیو کو اس وقت ترقیافتہ ممالک میں بھی اہمیت دی جا رہی ہے اور تفریح و معلومات کے انگنت ذرائع کی موجودگی میں بھی ریڈیو کی اہمیت کم نہیں ہوئی کیونکہ یہ ایک طرف آسانی سے دستیاب ذریعہ ہے تو دوسری طرف یہ سستا بھی ہے اور اس کے کئی اور ایسے پہلو بھی ہیں جن کیلئے یہ منفرد ہے ٹی وی اور موبائل فون پر معلومات حاصل کرنے کے دوران آپ کوئی اور کام مشکل سے کر پاتے ہیں جبکہ ریڈیو آن کر کے آپ اپنے دیگر کام نمٹاتے ہیں اور ساتھ ریڈیو پر معلومات اور تفریح سے بھی استفادہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی جیسے ترقیافتہ ممالک میں آج بھی ریڈیو کا دور دورہ ہے اور وہاں پر ریڈیو عام آدمی کی زندگی میں اسی طرح موجود ہے جس طرح ٹی وی اور دیگر ذرائع کے آنے سے قبل موجود تھا۔