پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) سیزن سیون کے مقابلے دوسرے مرحلے میں لاہور منتقل ہونے کے بعد سب سے پہلا ’ناقابل یقین نتیجہ (اَپ سیٹ)‘ ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز کے درمیان ہوئے میچ کا سامنے آیا جس میں جاری مقابلوں کی ناقابلِ شکست ٹیم ’سلطانز‘ کو شکست دی اور ثابت کیا کہ اگر کوئی ٹیم مضبوط اعصاب کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتی ہوئی تو پہلے یا بعد میں باری کھیلنے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا جبکہ قلندروں کی بدقسمتی رہی کہ اپنے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے سامنے خاطرخواہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور یہ بات ایک عرصے تک یاد رکھی جائے گی! سلطانز اور قلندروں کے درمیان ہونے والے گزشتہ مقابلے میں لاہور قلندرز کے باؤلرز دوسوسات رنز کے ہدف کا دفاع نہیں کر پائے تھے اور اسی لئے ایک اچھے سکور کے باوجود سلطانز کی فتح کافی واضح لگ رہی تھی لیکن اس بار لاہور قلندرز نے شروع سے ہی ملتان کی بیٹنگ کو قابو میں رکھا۔ کرکٹ کی ضرب المثل ہے کہ ’کیچز ون میچز‘ یعنی کیچ پکڑیں اور میچ جیتیں لیکن شاید قلندرز پر یہ مثال بھی صادق نہیں آتی۔ لاہور قلندرز کے فیلڈرز جب تک دو یا تین کیچ گرا نہ دیں تب تک میچ نہیں جیت پاتی۔ اس میچ میں ایک بار پھر بہترین باؤلنگ اور بیٹنگ کے ساتھ نہایت ناقص فیلڈنگ دیکھنے کو ملی۔ خاص بات یہ ہے کہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں جیسا کہ بگ بیش اور دیگر لیگز میں بہترین فیلڈنگ اور شاندار کیچ دیکھنے کو ملتے ہیں‘ وہیں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں فیلڈنگ کا معیار نہایت ناقص رہا ہے۔ امید یہ ہوتی ہے کہ پاکستانی فیلڈرز غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلیں گے تو ان کی فیلڈنگ بہتر ہوگی لیکن یہاں تو غیر ملکی کھلاڑیوں کی فیلڈنگ بھی خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس میچ میں بھی فل سالٹ نے کیچ گرانے کے ساتھ ساتھ کیپنگ میں بھی خراب کارکردگی پیش کی۔ قلندروں نے اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک بین ڈنک‘ ذیشان اشرف اور فل سالٹ کو بطور کیپر آزمایا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب پیکج نہ بن سکا۔ بین ڈنک اگر بیٹنگ میں ناکام رہے تو باقی دونوں نے وکٹ کے پیچھے مایوس کیا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو قلندرز کو اگلے اہم میچوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ قلندرز کے لئے اہم میچوں میں عبداللہ شفیق‘ کامران غلام اور حفیظ کو یکے بعد دیگر بیٹنگ پر بھیجنا بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ فخر زمان اس وقت بہترین فارم میں ہیں اور ہر میچ میں اچھا اسکور کرنے کے ساتھ بہترین اسٹرائیک ریٹ بھی لے کر چل رہے ہیں تاہم ساتھی بلے بازوں کا سست کھیلنا اور بعد میں بڑے ہٹرز کو بیٹنگ کا موقع ہی نہ مل پانا‘ فتح اور شکست کے درمیان فرق ثابت ہوسکتا ہے۔ حالیہ مقابلے میں حفیظ شروع کی بیس گیندوں پر کافی پریشان نظر آئے اور لگ رہا تھا کہ اگر وہ زیادہ دیر وکٹ پر رہے تو وہ لاہور کی شکست کی وجہ بن جائیں گے مگر عباس آفریدی نے ایک کمزور بال پھینکتے ہوئے حفیظ کو ان مشکل حالات میں چھکا لگانے کی مہلت دی اور اس کے بعد صورتحال کچھ بہتر ہوئی لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یقینی طور پر حفیظ کی یہ اننگ قلندرز کو مہنگی پڑسکتی تھی۔ خاص طور پر تب جب حفیظ کامران غلام کی ایک سست اننگ کے بعد سامنے آئے۔ قلندرز کو کچھ ایسا کرنا بھی ہوگا کہ پاور ہٹرز کو چند اوورز تو لازمی کھیلنے کو مل سکیں۔ عبداللہ شفیق یا کامران غلام میں سے ایک کی جگہ ذیشان اشرف کو موقع دینا بھی شاید ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ملتان سلطانز نے چند روز پہلے جب لاہور قلندرز کے خلاف ایک بڑے اسکور کا کامیاب تعاقب کیا تھا تو اس میں ان کے اوپنرز کی بہترین بیٹنگ کا اہم کردار تھا۔ شان مسعود اور رضوان نے لاہور قلندرز کے باؤلرز کے خلاف پراعتماد بیٹنگ کی جس کے سبب میچ کافی آسان ہوگیا تھا لیکن لاہور آمد پر رضوان کے اسٹروکس کچھ خفا ہوگئے ہیں۔ اب تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں رضوان کے اسٹروکس میں وہ روانی نہیں دکھائی دی جس سے وہ پچھلا پورا سال کھیلتے رہے۔ ملتان سلطانز کی ٹیم اور اس کے چاہنے والے یہی امید کر رہے ہوں گے کہ جلد ہی رضوان اپنی اصل فارم میں واپس نظر آئیں گے۔ صہیب مقصود پچھلے سال پی ایس ایل میں بہترین فارم میں تھے‘ بہترین اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ مسلسل سکور کررہے تھے اور اسی وجہ سے ان کی قومی ٹیم میں بھی سلیکشن ہوئی تھی مگر فٹنس مسائل کی وجہ سے وہ قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے اور اب لگتا ہے کہ ان کی وہ فارم بھی کہیں کھو چکی ہے۔ قذافی سٹیڈیم لاہور میں پی ایس ایل کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ لاہور میں ’اوس‘ کا میچ کے فیصلے میں اہم کردار ہوگا اور بعد میں بیٹنگ نسبتاً آسان رہے گی مگر ابھی تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں گھاس پر اوس تو ضرور موجود رہی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ گیند پر گرفت کرنے میں باؤلرز اور فیلڈرز کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو۔