پشاور ہی پشاو ر 

یہاں کا ہر دروازہ پشاور شہر کے ماتھے کا جھومر ہے۔اندرون اور بیرون ہمہ وقت رش رہتا ہے۔خاص طور پر تو شام اور شام کے بعد یہاں کی رونق دیکھنے لائق ہوتی ہے۔بڑے بڑوں کا جی چاہتا ہے کہ یہاں گھومتے پھرتے رہیں آتے جاتے رہیں۔بلا مقصد اور یونہی سیر سپاٹے کے لئے کسی قہوہ خانے میں بیٹھ کرقہوہ کی سرکیاں لیں۔ ایک زمانے میں عین نہر کی پل پر بنے ہوئے ایک قہوہ خانے میں ہم دوست یار سہ پہر اکٹھے ہو جاتے اور وہاں قہوہ نوشِ جاں کرتے۔اب تو خیر فرصت ہی نہیں جو یہ مشق دہرائیں۔مگر اب بھی وہاں جانا ہو تو دل وہیں ٹھہر جاتا ہے اور ہم گھر آ جاتے ہیں۔شہر کے بیرون رہنے والے پرانے شہریوں کیلئے پشاور بلکہ پشور کے اندرون کا ہر نظارہ دل میں ترازوہونے کے لئے تیار ہوتا ہے۔جو شہر پرانے ہیں جن کی ایک تاریخ ہے وہ عام طور سے دروازوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دروازے ڈہہ جاتے ہیں مگر دروازوں کے نام شہریوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ایک زمانے تک پشاور کے دروازوں کا تو کہیں نام و نشان نہ تھا۔ سولہ دروازوں کے بس نام ہی شہرکے بیٹوں کو یاد تھے۔ مگر پچھلی حکومت کے ایک وزیر صاحب نے یہ مہربانی فرمائی تھی کہ اس شہر کے دروازوں کو از سرِ نو کرید کر نکالا اور وہاں لکڑی کے پرانے نہ سہی مگر جدید زمانے کو سامنے رکھ کر سیمنٹ او رگلابی اینٹوں کے دروازے کھڑے کر دیئے۔ہائے کیا منظر ہوتا ہوگا جب برسوں پہلے یہا ں لکڑی کے دروازے دو سال پہلے کھڑے ہوں گے۔ وہ سنتری پہرے دار چھتنار اس شہر کی حفاظت پر مامور تھے۔پھر اس زمانے نے آنا تھا کہ  جب ہم نے یہا ں کے گلی کوچوں میں کھیلنا تھا۔شہر لاہور یا کوئی اور شہر ہو جو قدیم ہو اکثر ایسا ہوتا کہ وہ دروازوں کے اندر مقیم ہوتا ہے۔ اس شہر کی بُوباس کی معطر فضا سے جسم و جاں کو مسحور کرتی ہیں۔یہا ں کے رہن سہن اور ثقافت سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔یہاں کی سہولیات سے اپنی زندگی کو مزید سہل بناتی ہیں۔یہی قوموں کا وطیرہ رہاہے۔سرِ شام یہ دروازے بند ہو جایا کرتے تھے۔ ہم نے تو اپنی پوری زندگی میں وہ دروازے جو لکڑی کے تھے نہیں دیکھے۔مگر بزرگ قصہ خوانی کر تے ہیں اور وہ شاندار ماضی سامنے لے آتے ہیں۔ہم یادوں اور تخیل کے سہارے اس ماضی کو ٹٹولتے ہیں پھرولتے ہیں۔پھر خیال کی مدد سے اس دور میں پیچھے چلے جاتے ہیں جب ہمارے باپ دادا اس شہر کی گلیوں میں کھیلتے کھالتے ہوں گے۔کرکٹ نہ سہی اور نہ ہاکی مگر گلی ڈنڈا اور پیٹو گرم ضرور کھیلتے ہوں گے۔یہ کھیل تو ہم نے بھی اپنی گلی میں کھیلے ہیں۔اس وقت کرکٹ کی یہ رنگا رنگی اور رعنائی نہ تھی۔ کرکٹ سے توکوئی آشنا ہی نہ تھا۔ پھر ہاکی کا ذکر تو تھا مگر اس کا تذکرہ نہ تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے میں کپتان اصلاح الدین نے مغربی جرمنی کے خلاف سیمی فائنل میں ایک ہی گول کرکے پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان کروا دی تھی۔سامنے آتے ہوئے گول کیپر کے سر کے اوپر سکوپ کر کے گیند کو اچھال کر گول پوسٹ میں ڈال دیا تھا۔ لوگ رات کے پچھلے پہر اس براہِ راست دیکھے جانے والے میچ کے دوران میں سجدے میں گر گئے۔اب تو ان دروازوں کی اپنی سی الگ شان ہے۔یہاں وہ ماضی کی نیرنگی تو نہیں مگر زمانہ غضب کی چال چل گیا ہے۔اب تو او رہی مزے ہیں۔دروازے کے اندر چلے جائیں یا ان کے باہر ہی گھومیں پھریں۔ ہر طرف پشاور ہی پشاو رہے۔پشاور بہت پھیل چکا ہے۔اس کی حدیں ان دروازوں کے اندر ہوتی تھیں۔ مگر اب پشاور کا رقبہ جغرافیہ اور حدود اربعہ بدل گیا ہے۔رش کا وہ عالم ہے کہ چھٹنے کانام ہی نہیں لیتا  کیونکہ پشاوراب جدید زمانوں کی نشانی بننے لگا ہے۔ دور تک کالونیاں اور آبادیاں پھر پلازے اُگ کر اوپر اٹھ رہے ہیں۔ نئے نئے رہائشی اپارٹمنٹ بن رہے ہیں۔ہاؤسنگ سکیمیں ہیں جن سے شہری لطف اندوز ہو کر اپنے لئے پلاٹ خرید رہے ہیں او رتیا رفلیٹ لیتے ہیں۔ ایک دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے۔جوں سویر ہوتی ہے شہرکی سڑکیں آباد ہونے لگتی ہیں پھر شام کے بعد تک ان سڑکوں پرٹریفک کی روانی اور فراوانی کی بہتات ہوتی ہے۔اب پشاور کے ایک سرے کا تو شاید پتا لگ جائے مگر اس کے دوسرے کونے کے بارے میں کسی کو حتمی معلومات نہیں۔ہر طرف گلیاں کوچے آباد ہیں۔وہ گلیاں بھی ہیں کہ جن کو ہم نے خود دروازوں کے اندر زندگی میں ایک بار بھی نہیں دیکھا سو اب اگر شہر میں وسعت در آئی ہے تو بھلا اس کا انت کون پا سکتا ہے۔کیا خبر جو شہر سے باہر گئے اور وسعت کے لئے جہاں رہائش پذیر ہیں ان کے گھر جائیں تو وہاں کے لوگوں اور دکانداروں سے ان کے گھر کا پتا پوچھنا پڑتا ہے۔پھر جا کر کہیں ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچ پاتے ہیں۔شہر کی وسعت ِ داماں کا یہ حال کبھی دیکھا نہ سنا۔ ہمارے سامنے سے ایک نقطہ یوں پھیلا کہ اب پورا ایک بڑا دائرہ بن گیا ہے کہ جس کو نگاہیں اپنے اندر سمولینے سے قاصرہوئی جاتی ہیں۔