کلاس کا ہفتہ وار ٹیسٹ یا گاہے گاہے لیا جانے والا پیپر ایک نفسیاتی جائزہ ہوتاہے۔یہ ٹیسٹ لیا جانا چاہئے۔اس کا مقصد اس پیپر میں پاس ہو جانے والوں کو سرٹیفیکیٹ بانٹنا نہیں ہوتا۔ مگر استاد کو خود آگاہی کیلئے یہ قدم اٹھانا ہوتا ہے۔وہ ا س لئے کہ دیکھے کون کتنے پانی میں ہے۔ مگرطلباء کی تعداد کے لحاظ سے کلاس اتنی بھاری بھرکم نہ ہو کہ اس سے امتحان لینا اپنے آپ کو مزیدمشکل میں ڈالنے والی بات ہو۔ امتحانوں کی اقسام ہیں۔ جن کے نتائج سے مختلف قسم کے رویوں کو جانچنا اور پرکھنا ہو تاہے۔سالانہ امتحان کا مقصد اور ہوتا ہے تاکہ طلبا ء وطالبات کو اسناد دی جائیں۔ ان کو اگلی کلا س میں ترقی حاصل ہو جائے۔پھر کالج سکول میں گاہے گاہے ٹیسٹ منعقد کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ سٹوڈنٹس کو سالانہ امتحان میں پیپر حل کرنے کی تربیت حاصل ہو۔اس سے دراصل اپنے ادارے کی نمود نمائش مقصود ہوتی ہے۔ مگر یہ کچھ برا بھی تو نہیں۔ ٹیسٹ ہونا چاہئے بلکہ ہفتہ وار ہونا چاہئے۔ مختصر ٹیسٹ اسی پیریڈ میں خواہ چالیس منٹ کا ہے یا ایک گھنٹہ کا۔اس سے طلباء طابات کی رواں ذہنی ترقی پر روشنی پڑتی ہے۔اگر ہفتہ میں ایک بار نہ ہو تو پندرہ دنوں میں ٹیسٹ لینا چاہئے۔ بعض حالات میں ٹیچر کو کورس جلدی ختم کروانے کو کہا جاتا ہے۔اس لئے اگر اس وقت مہینے میں ایک بار ٹیسٹ لیا جائے تو برا نہیں۔اس سے کلاس میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔پھر بچوں کی غلطیاں بھی دور ہوتی ہیں۔انھیں ٹیچر مزید ہدایات جاری کرتا ہے کہ سوال کو کس طرح حل کرنا ہوگا۔مقابلے کی فضاء اگر پیدا ہو تو یہ سونے پہ سہاگا ہے۔ایک دوسرے کی دیکھا داکھی بچہ لوگ زیادہ محنت کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے آگے نکل جائیں۔ایسے موقع پر بعض سٹوڈنٹ ہر بار فرسٹ آتا ہے۔جس کی وجہ سے باقی کے بعض طلبا ء غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر سکول کی اپنی پالیسی ہوتی ہے کہ طلبا ء کو کس طرح تعلیم کی طرف آمادہ کرنا ہے اور پھرکیسے اس کے ماں باپ کو تسلی دینا ہوتا ہے۔ٹیسٹ ایک نفسیاتی جائزہ ہوتا ہے۔تاکہ یہ معلوم ہو کہ سٹوڈنٹ ذہنی سطح کے کس معیارپر ہے۔دراصل ٹیسٹ کا مقصد گاہے ان کے ذہن کو پڑھنا ہوتا ہے۔اونچی کلاسوں میں خاص طور ادب کی کلاسوں میں ٹیچر لیکچر دے دے کر محسوس کرنے لگتا ہے کہ اب مجھے دیکھنا ہے کہ فیڈ بیک کیا ہے۔مگر اس کے لئے بنیادی شرط طلبا ء کی تعداد کا کم ہوناہے۔اگر کلاس میں ایک سوبیس طالب علم ہوں جیسا کہ سرکاری کالجوں میں داخلے زیادہ دینے کی وجہ سے ہوتا ہے تو اس موقع پر خود استاد کو ٹیسٹ لینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو تی ہے۔کیونکہ پیپر تو لے گا مگر اس ٹیسٹ میں مارکنگ کے لئے کافی وقت چاہئے۔مگر ہر صورت میں ٹیسٹ کاانعقاد ایک بہتر راہ ہے تاکہ سٹوڈنٹس کو بھی یہ نفسیائی طور پر ڈھارس ملے اور گاہے ڈر ہو کہ ہم پر ٹیچر کی نگاہ بہت خوب ہے۔یوں ان کی کارکردگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کلاس میں آنے والے نئے ٹیچر کو اگر کلاس کا ذہنی ٹمپریچر چیک کرنا ہو تو اول وہ اپنے لیکچر کے دروان میں سوالات کررہتا ہے۔پھر سٹوڈنٹ کو کلاس میں موضوع کے مطابق بولنے کاموقع دیتا ہے تاکہ ان کی ہچکچاہٹ بھی دور ہو اور ان میں اعتماد بھی آئے۔پھر ان کے ذہن کو پڑھنے کا موقع بھی ملے۔کیونکہ سنجیدہ استاد کو ایسے اقدامات کرناپڑتے ہیں۔گویا کلاس کا ماہانہ یا ہفتہ وار ہلکا پھلکا ایک سوال کا ٹیسٹ خود ٹیچر کو طلباء کی قابلیت کو جانچنے کا موقع دیتا ہے۔سٹوڈنٹ خواہ جتنا قابل ہو وہ عمر کے لحاظ سے پھر دیگر واسطوں سے کہ میں طالب علم ہوں اور استاد کے سامنے ہوں کبھی استاد پر فوقیت حاصل نہیں کر سکتا۔کیونکہ استاد استاد ہوتا ہے اور شاگرد شاگرد۔کچھ بھی نہ ہو تو استاد کو تجربہ کی بنیاد پر ہرحالت میں سٹوڈنٹ پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ کھڑے ہو کر پڑھانا او رمعنی رکھتا ہے۔ پھر کلاس میں بیٹھ کر اپنے ہم عمروں کے درمیان میں کتاب کھول کر پڑھنا اور مقام ہے۔پھر سٹوڈنٹ عمر کے ایسے دورسے گذر رہے ہوتے ہیں کہ ہزار قابلیت کے باوجود وہ بچے ہی رہتے ہیں۔سو بچے اور بڑے آدمی میں عمر کا وار تجربہ کا جو فرق ہوتا ہے اس خلیج کو ایک طالب علم کی طرف سے کبھی بھی کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔