تحریک ِانصاف حکومت سے قبل کسی بھی وفاقی حکمراں جماعت نے عوامی شکایات کو اِس قدر (خاطرخواہ) اہمیت نہیں دی‘ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سرکاری محکموں اور اداروں کے خلاف ”پاکستان سیٹیزن پورٹل“ پر گزشتہ سال درج کروائی گئیں دو لاکھ اڑتیس ہزار اٹھانوے شکایات دوبارہ کھولنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ یہ فیصلہ اُن شکایت گزاروں کی جانب سے منفی رد عمل موصول ہونے کے بعد کیا گیا ہے جو اپنی شکایات کے حل (دیئے گئے مبینہ ریلیف) سے مطمئن نہیں تھے یا جن کی شکایت کے بعد بھی یہ شکایت برقرار رہی کہ اُنہیں ادھورا ریلیف دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری ہونے والی مذکورہ تحریری ہدایات (بصورت مکتوب) کی سوشل میڈیا پر پذیرائی ہو رہی ہے جس میں متعلقہ حکام کو ”سختی سے اور واضح ہدایت“ کی گئی کہ وہ عوامی شکایات کو میرٹ پر نمٹانے کیلئے اپنی نگرانی میں اِن شکایات کا از سر نو جائزہ لیں۔ وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری خط کے مطابق عمران خان نے وفاقی سیکرٹریز‘ صوبائی چیف سیکرٹریز اور صوبائی پولیس سربراہوں (آئی جی پیز) کو ہدایت دی ہے کہ وہ ماتحت متعلقہ محکموں کے سربراہان (ڈویژنل کمشنرز‘ آر پی اوز وغیرہ) کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں کریں اور شکایات پر دوبارہ غور اور جانچ پڑتال کے لئے متعلقہ افسران کو خاص ہدایات کے ساتھ ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’دو لاکھ اڑتیس ہزار نوسوبیاسی‘ (درج کرائی گئی) شکایات میں سے ’ایک لاکھ چودہ ہزار نوسوسولہ‘ کیسز ایسے تھے جنہیں ایک جیسے جملوں (ریمارکس) کے ساتھ یہ کہتے ہوئے بند کردیا گیا تھا کہ ”شکایت گزاروں کو مکمل ریلیف فراہم کردیا گیا ہے“ جبکہ شہریوں نے ”منفی رائے (feedback)“ دے کر ریلیف ملنے کی تردید کی تھی۔ مذکورہ شکایات کے علاؤہ باقی ماندہ ایک لاکھ تیئس ہزار ایک سو بیاسی شکایات میں شکایت گزاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں جزوی یا ادھورا ریلیف ملا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کیسز کا از سر نو جائزہ لینے کا مقصد صرف مثبت فیڈ بیک میں اضافہ نہیں ہے‘ اس کا مقصد میرٹ‘ قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرتے ہوئے مسائل‘ شکایات کو حقیقت میں حل کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے ہدایت جاری کی ہے کہ ہر ادارے‘ محکمے یا اتھارٹی کے معاملے میں ایک سینئر افسر کو ذمہ داری کو دی جائے جو ہر سطح پر شکایات پر نظرثانی سے متعلق معاملات کی نگرانی کرے۔ قابل ذکر ہے کہ دوبارہ کھولے جانے والی شکایات میں سے ایک لاکھ ستر ہزار کیسز وفاقی محکموں‘ اَسی ہزار صوبہ پنجاب‘ ستائیس ہزار خیبرپختونخوا‘ پندرہ ہزار سندھ‘ تین ہزار بلوچستان جبکہ گیارہ ہزار آزاد جموں و کشمیر اور چارسو گلگت بلتستان سے متعلق ہیں۔ شہریوں کی جانب سے درج شکایات یا تحفظات کا تعلق زیادہ تر میونسپل سروسز‘ بجلی‘ گیس‘ مواصلات اور تعلیم کے شعبوں سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان سیٹیزن پورٹل کا آغاز سال دوہزاراٹھارہ میں کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہر خاص و عام اپنی شکایت وزیراعظم کے دفتر تک پہنچا سکے۔ اِس سہولت کو متعارف ہونے کے بعد سے اب تک (تین برس سے زائد عرصے میں) سینتیس لاکھ سے زائد لوگوں ’سیٹزن پورٹل‘ پر رجسٹر ہوئے اور دوہزاراٹھارہ سے جاری سال دوہزاربائیس تک سٹیزن پورٹل پر چالیس لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ سٹیزن پورٹل کا نگران ادارہ وزیراعظم کے ماتحت بنایا گیا خصوصی شعبہ ہے جسے ”پرائم منسٹر پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ سیٹیزن“ کہا جاتا ہے اور اِس مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنتالیس فیصد شہریوں نے پورٹل کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اُنہیں دیگر سرکاری اداروں کی کارکردگی پر اعتماد نہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ سٹیزن پورٹل پر صرف اندرون ملک ہی سے نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی پاکستانیوں نے شکایات درج کروائی ہیں اور مجموعی طور پر موصول ہونے والی چوالیس لاکھ سے زائد شکایات میں سے ’دو لاکھ پندرہ ہزار‘ کا تعلق بیرون ملک (اوورسیز) پاکستانیوں سے ہے جبکہ باقی ماندہ بیالیس لاکھ شکایات پاکستان کے مختلف صوبوں سے ہیں اور وزیراعظم دفتر کا ابتدائی بیان یہ تھا کہ موصول ہونے والی چالیس لاکھ شکایات کو حل کر دیا گیا ہے لیکن پنجاب سے بائیس لاکھ‘ خیبر پختونخوا سے چھ لاکھ‘ سندھ سے پانچ لاکھ‘ بلوچستان سے اکیاون ہزار اور اسلام آباد (وفاقی دارالحکومت) سے ستتر ہزار سٹیزن پورٹل کے رجسٹرڈ صارفین کی ایک تعداد اپنی شکایات کے حل سے مطمئن نہیں پائی گئی اور ایسی ہی شکایات دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم سٹیزن پورٹل کی کارکردگی اِس کے آغاز ’اکتوبر 2018ء‘ سے دیکھیں تو اِس کے ذریعے طرزحکمرانی کو جامع بنانے (گڈ گورننس کے حصول) میں کافی مدد ملی ہے اور یہی وجہ رہی کہ فروری دوہزاراُنیس میں متحدہ عرب امارات (دبئی) میں منعقدہ ”ورلڈ گورنمنٹ سمٹ“ میں پاکستان کے سٹیزن پورٹل کو دنیا کی دوسری بہترین سرکاری موبائل ایپلی کیشن قرار دیا گیا تھا۔ اِس فہرست میں پہلے نمبر پر بھی مسلم ملک انڈونیشیا کی ایپلی کیشن تھی جبکہ تیسرے نمبر پر امریکی حکومت کی اپیلی کیشن رہی۔ مذکورہ ”ورلڈ گورنمنٹ سمٹ“ میں ستاسی ممالک کی طرف سے مختلف کیٹیگریز میں چار ہزار چھ سو پنتالیس موبائل ایپلی کیشنز جمع کروائی گئی تھیں۔ پاکستان میں بدعنوانی (کرپشن) کے خاتمے اور سرکاری اداروں بشمول سرکاری اہلکاروں (بیوروکریسی) کی کارکردگی کو بہتر بنانے جیسے ”درپردہ مقاصد“ حاصل کرنے کیلئے ’سٹیزن پورٹل‘ پر شکایت درج کرنے کیلئے مختلف زمرے (کٹیگریز) تشکیل دیئے گئے جن میں کرپشن اور غیرقانونی سرگرمیوں جیسے عنوانات کے تحت بھی شکایات درج کرانے کی سہولت دی گئی اور کرپشن و دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے زمرے کو مزید چھ ذیلی کیٹیگریز تخلیق کی گئیں‘ جن میں مالی کرپشن‘ اہلیت (میرٹ) سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کے حوالے سے کی گئی کرپشن‘ طاقت کا غلط استعمال‘ دھوکہ دہی‘ جعل سازی‘ ہراسگی اور نااہلی سے متعلق شکایات درج کروائی جا سکتی ہے لیکن بنیادی سوال (مرحلہئ فکر) یہ ہے کہ کرپشن‘ سرکاری اختیارات اور طاقت کے غلط استعمال‘ دھوکہ دہی‘ جعل سازی‘ جنسی و ذہنی ہراسگی وغیرہ جیسے رجحانات کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی اور اَب جبکہ عوامی شکایات کو دوبارہ کھولنے اور اِن کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔