لوکل گورنمنٹ کا حال میں جو الیکشن ہوا ہے اس کے نتائج دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے حسب دستور split mandate دیاہے اور ملک کی تقریبا تمام 14 سیاسی پارٹیوں نے ان انتخابی حلقوں میں سیٹیں جیتی ہیں کہ جن میں ایک عرصہ دراز سے سے ان کا سیاسی اثر و نفوذ نظر آ رہا تھا ان نتائج کی روشنی میں اپوزیشن کا مجوزہ لانگ مارچ یا عدم اعتماد کی تحریک کا مستقبل تابناک نظر نہیں آ رہا۔ وہ لانگ مارچ بھی شروع کریں گے اور عدم اعتماد کی تحریک بھی لائیں گے پر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کے پروگرام نشستند گفتند و برخاستند سے آگے شاید نہ بڑھیں۔ ان حقائق کے باوجود تمام سیاسی پارٹیاں آخری لمحے تک پارلیمنٹ میں اپنی عدوی قوت کو زیادہ کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہیں گی کہ بقول کسے ڈوبتے کو تنکے کا بھی سہاراہوتا ہے۔ البتہ جو بات افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ پارلیمانی لیڈریا دوسرے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف جو گفتار کررہے ہیں اس کا اخلاقی معیار دن بدن پست ہوتا جا رہا ہے اب آ پ کو اس معیار کی سیاسی تقاریر سننے کو نہیں ملتیں کہ کہ جو کبھی حسین شہید سہروردی‘میاں ممتاز دولتانہ‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ مولانا مفتی محمود‘خان عبدالقیوم خان‘ خان عبدالولی خان اور سیّد ابو الاعلی مودودی جیسے سیاسی رہنما کیا کرتے تھے۔اب بات کچھ دیگر اہم امور کی ہوجائے توایک لمبے عرصے کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی نے ایک صحیح سمت اختیار کی ہے۔ چین کے ساتھ تو خیر کافی عرصہ سے ہمارے تعلقات خوشگوارتھے ہی پر ان میں مزید وسعت اور قربت لانا ضروری تھا۔ماسکو کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی صحیح معنوں میں دوستانہ نہیں رہے۔ خصوصا ًاس دور میں کہ جب ہم نے کھلم کھلا روس کے مخالف بلاک میں شمولیت کی تھی تو ان دنوں تو یہ تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے تھے بلکہ یوں کہئے کہ اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات میں بگاڑ اس وقت سے آ نا شروع ہو گیا تھا کہ جب انیس سو پچاس کی دہائی کے اوائل سے ہم نے ہم امریکہ کی سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں اس کا ساتھ دیا، جس سے ماسکو کا پاکستان پر کافی حد تک اعتبار ختم ہو گیا اور پھر اس نے صدق دل سے کسی معاملے میں بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اب یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان برف پگھلنے لگی ہے اور عنقریب وزیر اعظم پاکستان عمران خان روس کا دورہ کرنے والے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ دورہ روس اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو۔یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی دورہ ثابت ہوگا کیونکہ اس دورے کے بعد پاکستان روس کے ساتھ زیادہ پائیدار تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو گا جس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے اور حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔اس وقت عالمی سطح پر جو نئی شراکتیں اور دوستیاں پروان چڑھ رہی ہیں تو ایسے میں پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ نہایت ہی قریبی تعلقات رکھن چاہئیں، صرف اسی صورت میں ہی ہم وطن عزیز کو اس کے دشمنوں کی سازشوں سے سے بچا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت دنیا میں جو حالات بنے ہوئے ہیں ان میں ممالک کے درمیان تعلقات کا انحصار زیادہ تر معاشی اور اقتصادی معاملات پر ہے اور چین نے پاکستان کے ساتھ جو روابط اقتصادی اور معاشی شعبے میں مضبوط کئے ہیں تو اس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہونے لگے ہیں اسی طرح ہم روس کے ساتھ بھی اقتصادی شعبے میں جڑتے ہوئے اپنے ترقی اور خوشحالی کے لئے زیادہ سے زیادہ امکانات پیدا کر سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشی خوشحالی کی صورت میں سفارتی محاذوں پر بھی کامیابیاں ملتی ہیں روس اور پاکستان کے تعلقات اگر اس مقام پر پہنچ جائیں کہ جہاں دونوں ممالک معاشی طورپر ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جڑ جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وسطی اشیاء کے ممالک بھی پاکستان کے ساتھ زیادہ تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں جس کا نتیجہ معاشی مضبوطی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ