امریکہ نے یوکرین بحران کے تناظر میں روس کے پیش کردہ سلامتی مطالبات پر اپنے تحریری جواب دے دئیے ہیں اور اب روس آئندہ ہفتے تک اس کا جواب دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔روس جوابات کا تجزیہ کر رہا ہے اور روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو کے مطالبات کو بنیادی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور امریکہ روس کو جنگ میں پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے۔مغربی ممالک روس پر یوکرین میں مداخلت، علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے اور اس کی سرحد پر افواج جمع کرکے اس پر عنقریب حملہ آور ہونے کا الزام لگارہے ہیں۔ روس یوکرین اور امریکہ پر عدم استحکام پیدا کرنے والے رویے کا الزام لگاتا ہے اور کہا ہے کہ اسے اپنے تحفظ کیلئے ضمانتیں درکار ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی روس سے یوکرین سرحد پر جمع افواج کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ روس کے مطابق اس کا یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں مگر وہ ابھی تک اپنی افواج کی واپسی کیلئے تیار نہیں۔ اس کے بجائے وہ امریکہ اور یورپی ممالک سے چند تحریری یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتا تھا کہ نیٹو مشرقی یورپ میں توسیع نہ کرنے، یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے، سابقہ سوویت یونین میں شامل ممالک سے اپنی فوج نکالنے اور یوکرائن یا کسی بھی سابق سوویت ریاست میں اپنی فوج یا عسکری آلات نصب نہ کرنے کی یقین دہانیاں دے مگر امریکہ اور نیٹو نے ابھی تک روس کو یہ یقین دہانیاں نہیں دی ہیں تاہم لیک شدہ دستاویزات میں امریکہ نے روس کو مشرقی یورپ میں میزائلوں کی تنصیب پر مزید شفافیت کا یقین دلایا ہے مگر روس کو بنیادی پیغام یہی تھا کہ امریکہ اور نیٹو روسی مطالبات کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔لیک شدہ دستاویزات میں امریکہ نے اسلحہ کنٹرول، میزائل تنصیب نظام اور فوجی مشقوں میں شفافیت لانے کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی۔لیکن امریکہ نے یوکرین یا دیگر یورپی ممالک کے نیٹومیں متوقع شمولیت پر روس کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی خودمختار ملک پر اس کے سلامتی انتظامات کے انتخاب، تبدیلی یا اتحاد اور معاہدوں میں شمولیت کے اختیار پر کوئی قدغن ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے روس کے اس مطالبے کو بھی مسترد کردیا کہ امریکہ اور نیٹو روس کے ساتھ جدا جدا معاہدے کریں جن کے تحت وہ نیٹو رکن ممالک سے ہتھیار اور فوجی ہٹانے کے پابند ہوں گے۔ امریکہ نے موقف اپنایا کہ پولینڈ اور بلقان کی ریاستوں میں قائم فوجی اڈے مستقل نہیں ہیں اور وہاں موجود پانچ ہزار فوجی 1997 کے روس نیٹو معاہدے کے تحت لڑاکا فوج میں نہیں آتے۔ اگر روس نے یوکرین میں فوج بڑھائی یا حملہ کیا تو پھر ہم اپنی اس دفاعی پوزیشن کو مزید بھی مضبوط بنائیں گے۔امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے کہا ہے کہ ان کے یوکرین میں لڑاکا فوج یا میزائل ہیں نہ ان کی تعیناتی و تنصیب زیرغور ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے وہ یوکرین کی سلامتی کیلئے روس کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے۔ حالات پر نظر رکھنے والے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یوکرین میں امریکہ کے پاس نہ تو میزائل ہیں اور نہ ہی جنگی یونٹس مگر روس کے پاس دونوں موجود ہیں۔ روس کی ایک لاکھ سے زیادہ فوج ساز وسامان سمیت یوکرین کی سرحد پر موجود ہے اور مغربی انٹلی جنس ذرائع کہتے ہیں وہ مزید فوجیں بھی جمع کر رہا ہے۔ چند مغربی ممالک کے مطابق روس فوجی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکہ کہتا ہے روس کسی بھی وقت یوکرین پر فضائی حملے سے جنگ کا آغاز کر سکتا ہے اور امریکی سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن کے بقول یہ حملہ چین میں سرمائی اولمپکس کے اختتام سے قبل ہوسکتا ہے۔امریکی صدر نے یوکرین میں موجود امریکی شہریوں کو وہاں سے فوری نکل جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک بڑی فوج سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور یوکرین پر روسی حملے کے بعد حالات جلد خراب ہوسکتے ہیں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے بعد ہزاروں امریکیوں کے بحفاظت انخلا کیلئے امریکہ نے پولینڈ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ امریکہ نے ضرورت پیش آنے پر مشرقی یورپ میں فوری تعیناتی کیلئے 8500 فوجیوں کو ہائی الرٹ کردیا ہے۔ ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ نے مشرقی یورپ میں تین ہزار مزید فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ فوجی جرمنی میں موجود ایک ہزار فوجیوں سمیت پولینڈ اور رومانیہ میں تعینات ہوں گے تاہم امریکی صدر کے بقول امریکہ کا یوکرین میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعیناتی کا مقصد عارضی تھا۔ ان فوجیوں کی تعیناتی بارے حکم نامے کے ذریعے امریکہ دکھانا چاہتا تھا کہ امریکہ اور اس کے انتیس نیٹو اتحادی اپنے عزم میں متحد ہیں اور امریکہ نیٹو ارکان کو روسی سرحد کے قریب آنے کا یقین دلانا ہے۔دونوں اطراف سے کئی ہفتوں کی سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ روس نے یوکرین کے پڑوس بیلا روس میں جمعرات سے دس روزہ فوجی مشقیں شروع کردی ہیں جس میں جدید ترین طیاروں، ہتھیاروں اور ایس 400 دفاعی نظام شامل ہیں۔ ساتھ ہی یوکرین کے جنوب مشرقی ساحل سے پرے بحیر اسود اور بحیرہ ازو میں بحری مشقیں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو یوکرین کے مطابق اہم بحری تجارتی شاہ راہوں کو بند کردینے کا موجب ہوگا۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے برطانیہ کی وزیر خارجہ سے مذاکرات کے بعد کہا کہ یہ ایک گونگے اور بہرے اشخاص کے درمیان گفتگو تھی تاہم روسی صدر کے بقول مغرب کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور روس امریکی تجاویز کا تحریری جواب تیار کررہا ہے۔اگرچہ بحران کو کم کرنے کیلئے سفارت کاری تیز ہوگئی ہے مگر ان جوابات نے مسٹر پیوٹن کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ کیا وہ مغرب کی جانب سے مسترد شدہ مطالبات پر جنگ میں جائیں یا امریکہ اور نیٹو کی جانب سے تجویز کردہ ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے پر مذاکرات شروع کرے۔ روسی صدر کو یہ انتخاب بھی درپیش ہے کہ وہ یوکرین پر فوجی قبضہ کریں یا یورپ کے ساتھ معاشی روابط قائم رکھیں۔ دونوں اس کیلئے آسان نہیں ہیں۔ نیٹو میں شامل یورپی ممالک بھی مخمصے کا شکار ہیں۔یورپ کو روسی گیس اور تیل درکار ہے جبکہ روس کو ان کے فروخت سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ‘روسی گیس یورپ کو ترسیلات کا چالیس فیصد ہے جبکہ روس بھی توانائی کے اس فروخت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جو اس کی معیشت کا تیس فیصد اور اس کی برآمدات کا ساٹھ فیصد ہے۔کشیدگی میں اضافے کے بعد امریکہ،برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، نیدرلینڈز، لیٹویا، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکلنے اور کئی ممالک نے یوکرین کے دارالحکومت سے اپنا سفارتی عملہ نکال لیا ہے۔ ادھر یوکرین نے روس سے اپنے سرحد پر فوجیوں کی اضافی تعیناتی اور اس کے ارادوں پر ویانا معاہدے کے قواعد کے تحت اپنے ارادوں کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔ واضح رہے ویانا معاہدہ یورپ میں سکیورٹی اور تعاون کی تنظیم کا ایک سلامتی معاہدہ ہے جس میں روس بھی شامل ہے۔