اپنااپنامیموری کارڈ

 یہاں تو حال یہ ہے کہ ہر بچے کا اپنا اپنا میموری کارڈ ہے۔وہ بچہ جوابھی پانچ سال کا ہے۔ مگر سکول داخل ہونے والا ہے یا داخل نہیں ہونا چاہتا۔پھر خود اس کے گھر والے اسے سکول میں داخل نہیں کرواتے۔ اس لئے کہ وہ ابھی چھوٹا ہے۔پھر وہ گلیوں میں کھیلتا رہتا ہے۔ پھروہ اصل زندگی اسی کو سمجھتا ہے۔باقی سب کچھ اس کیلئے بیکار ہے۔اس کو اگر الف بے سے آشنائی نہیں بھی ہے۔ مگر اس کا اپنامیموری کارڈ ہے۔جس میں وہ کارٹون ڈاؤن لوڈ کروا کر لاتا ہے۔پھر وہ گلی سے ہوکر گھرلوٹتا ہے۔ اپنے ہم جولیوں سے کھیل کھال لیتا ہے تو گھر میں بیٹھ کر کارٹون سے لطف حاصل کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے اور دیکھتا رہ جاتا ہے۔ایسے میں کہ کتاب کاپی نہ ہو سکول مدرسہ میں نہ جاکر بھی اگر اس کے پاس اپنا میموری کارڈ ہے تو اندازہ لگائیں کہ اس کا ذہن قابلیت کی کس سطح پر ہوگا۔ جب کہ وہ بچے جو ماضی میں گذار چکے ہیں۔ مثلاً ہم خود ہیں۔ ہم بچپن میں اس طرح تو چالاک نہ تھے کہ ”جگنوکو دن وقت پرکھنے کی ضد کریں۔ بچے ہمارے عہد کے چالا ک ہوگئے“۔پھر یہاں تو اس حال کا اور حال ہے۔وہ یہ ہے کہ نوجوان ہیں او ربچیاں ہیں وہ بھی موبائل کے چکر میں اس طرح چکرا کر رہ گئے ہیں کہ انھیں کسی طرف کا ہوش ہی نہیں رہا۔ان کے بھی اپنی یو ایس بھی ہے او رمیموری کارڈ ہے جس میں ایک دنیا بند ہیں۔ہزاروں تصوریریں ہیں اور سینکڑوں گانے ہیں جو قریب کی شاپ پر جا کر موبائل میں ڈلوائے گئے ہیں۔ایک قیامت کا منظر ہے او رہم ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھو ں میں امی ابوکاموبائل تھاماہواہے اور وہ خود ہی پاس ورڈ بھی کھول رہے ہیں۔خودہی مووی لگا لیتے ہیں خود ہی اپنا من پسند گانا لگا کر جھومتے رہتے ہیں۔وہی ایک گانا ہوتا ہے بار بار لگتا ہے۔پھر بندہ نہ چاہتے بھی بچوں کے دل کی خاطر وہی گانا بار بار سماعت پر اگرچہ گراں گذرے مگر سنتا ہے۔سکول نہ جانے والوں کو سکول جانا چاہئے اگر وہ نہیں جانا چاہتے تو ماں باپ کو پڑھنے لکھنے کا ایسا ماحول بنا نا چاہئے کہ بچہ خود کہے مجھ سکول میں داخل کرواؤ۔بعض جینئس لڑکے خود ماں باپ کی اجازت کے بغیر اپنے آپ کو سرکاری سکول میں داخل کرواآجاتے ہیں۔یا پھر دوستوں کے آکھے میں آ کر اپنے آپ کو مدرسے میں داخل کروا لیتے ہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والی بات ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہی لوگ آگے چل کر دنیا میں ایک کامیاب انسان کے روپ میں سامنے ہیں۔ کچھ بچیاں جو سکول میں داخل نہیں ہوتیں وہ بھی اپنی سہیلیوں کے دیکھا داکھی ماں باپ سے ضد کرکے خود کو سکول داخل کروالیتی ہیں۔ سکول ہر لحاظ سے بچے کے لئے بہت ضروری ہے۔کیونکہ ایک ان پڑھ انسان سے بہت اچھا وہ آدمی ہے جو پڑھا لکھا ہو۔کیونکہ تعلیم حاصل کرنے سے بندہ میں اچھے برے میں تمیز کرنا آ جاتا ہے۔پھر اپنے مالک و خالق کی تلاش و جستومیں لگ جاتا ہے۔ورنہ تو انسان یہاں بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔پھر گذارنا بھی چاہتے ہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی ہے پیارے زندگی۔دن بھر کھایا پیا او رشام ہوئی تو چارپائی پر لوٹ ماری اور سو گئے۔ چلو جی اس طرح زندگی کا ایک دن کٹ گیا۔کارروزگار ہے نہیں۔گھر کے درجن افراد ایک ہی آدمی کے کمانے پرہیں۔مگراس کے باوجود ان کو یہ ہوش نہیں کہ خود بھی کچھ ہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں۔ کیونکہ زندگی گذارنے کا یہ انداز درست نہیں ہے۔چلو ایک حد تو ٹھیک ہے مگر پڑھائی لکھائی سے فارغ ہو کر فرصت کے لمحات میں اگر قسم کی ویب سے دل کو مشغول لر لیا جائے تو مذائقہ نہیں۔یہاں تو ہر فرد کی اپنی مرضی ہے واوراپنامرض ہے۔ ہر آدمی کی اپنی تفریح ہے۔سو کسی کو روک نہیں سکتے تو کم از کم اس کو اس طرف توجہ دلاناضرور ی ہے۔تاکہ وہ موبائل دیکھنا تو نہیں چھوڑیں گے مگر پڑھائی بھی تو نہ چھوڑیں ٹک ٹاک کی دنیا بہت دل کش دنیا ہے۔اس میں ایک نشہ ہے ایک جادوہے۔جو آج کل ہمارے بچوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے تاہم اسے مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو فائدہ ہی فائدہ ہے اور نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔