موسم سرما کے آغاز پر دھند اور اختتام کے قریب آبی و فضائی آلودگی کے حوالے سے صورتحال اِس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ فیصلہ سازی سے عمل اور عمل سے تکمیل تک کے مراحل میں حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماحول کے تحفظ کے لئے کی جانے والی جملہ کوششوں کا صرف ایک ہی فریق یعنی حکومت سے تعلق ہے جبکہ تحفظ ماحول کی کوششیں اُس صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی جبکہ حکومت اور عوام (دونوں فریق) ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ زیادہ پرانی بات نہیں (چند ماہ پہلے) جب خیبرپختونخوا اور پنجاب کے بڑے شہروں کے آس پاس ’گھنی دھند‘ اور ’دھویں کی آمیزش والی دھند (سموگ)‘ سے پیدا ہونے والی صورتحال اِس حد تک خراب ہوئی کہ کئی شہروں میں تعلیمی سرگرمیاں اور معمولات زندگی معطل کرنا پڑے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ صرف ہوا (فضائی آلودگی) ہی نہیں بلکہ دریا اور دیگر آبی گزرگاہیں بھی آلودہ ہو رہی ہیں اور اِس سلسلے میں مختلف صنعتیں جو بنا تطہیر فاضل مادے اور فضلہ بہا رہے ہیں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ صنعت کوئی بھی ہو‘ اِس سے خارج ہونے والا پانی ماحول‘ مقامی نباتات اور حیوانات کے علاوہ گردوپیش میں لوگوں کی صحت کیلئے براہ راست خطرہ ہوتا ہے اور پاکستان میں تحفظ ماحول کے حوالے سے صنعتوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں قانون و قواعد موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد مایوس کن حد تک نہ ہونے کے برابر ہے! رواں ہفتے ایک غیرملکی جامعہ (یارک یونیورسٹی) نے مختلف ممالک کے دریاؤں میں بہائی جانے والی آلودگیوں اور مختلف ممالک میں دریاؤں کے پانی کے تجزیئے پر مبنی ایک مطالعہ جاری کیا‘ جس میں اگرچہ پاکستان کا ذکر شامل ہے لیکن اِسے ذرائع ابلاغ حتیٰ کہ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ مذکورہ تحقیق و تجزیئے میں کہا گیا ہے کہ ادویہ ساز صنعتیں جو پانی خارج کرتی ہیں‘ اُس میں انتہائی خطرناک کیمیائی ذرات ہوتے ہیں جو خاص قسم کی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ذیابیطس (شوگر) اور مرگی (ایپیلپسی) کے لئے استعمال ہونے والی دوائیوں کے عناصر اور نیکوٹین وغیرہ ایسے پانی میں پایا گیا ہے جبکہ دریاؤں کے پانی میں شامل پیراسیٹامول کے ذرات بھی ملے ہیں۔ قبل ازیں دریاؤں اور نہروں کے بارے میں عام آدمی صرف یہی جانتا تھا کہ اِس میں انسانی فضلہ اور کوڑاکرکٹ ڈالا جاتا ہے لیکن مذکورہ تحقیق میں جو حقائق سامنے آئے ہیں‘ وہ اِس لحاظ سے خطرناک ہیں کہ آلودہ پانی نہ صرف آبی حیات بلکہ انسانوں کی بقا کے لئے لازمی جز ہیں اور اگر آبی ذخائر کی حفاظت کرنے میں خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ انسانوں کا اپنا ہی مستقبل خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ آبی آلودگی کی سب سے اہم وجہ دریاؤں کے دونوں کنارے بنائی جانے والی صنعتی بستیاں اور فیکٹریاں ہیں اور ایسی صنعتیں ضلع پشاور کے علاؤہ سوات‘ نوشہرہ اور چارسدہ سمیت اُن سبھی علاقوں میں پائی جاتی ہیں‘ جہاں دریا انسانی آبادیوں اور قومی شاہراؤں کے قریب سے گزرتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں آبی آلودگی پھیلنے کے جاری عمل کو روکنے کیلئے جو کوششیں کر رہی ہیں ان کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی بات اور ضرورت یہ ہے کہ صنعتوں کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ پانی بنا تطہیر آبی گزرگاہوں میں نہ ڈالیں جبکہ دوسری طرف انسانی و صنعتی فضلہ بشمول کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کیلئے قومی حکمت عملی وضع ہونی چاہئے۔آخر یہ انتہائی بنیادی‘ ضروری اور سادہ سی بات فیصلہ سازوں کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ تحفظ ِماحول ہی تحفظ بقائے انسان ہے اور اگر اِس سلسلے میں قوانین و قواعد پر عمل درآمد یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی تو درحقیقت یہ کسی دوسرے پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر احسان ہوگا کیونکہ ماحول پر آنے والی نسلوں کی زندگیوں کا انحصار ہے اور آج کے ہر لمحے میں بسر ہونے والی زندگی جس تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے‘ اُسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والی نسلیں ہماری تحفظ ِماحول میں ناکامی جیسے جرم کو کبھی معاف نہیں کریں گی اور ہمیں اِس جرم کیلئے قصوروار ٹھہرایا جائے گا‘ جس میں ہر کوئی اپنے اپنے استطاعت کے مطابق شریک ہے۔ کوئی ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ کسی نے ماحول آلودہ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور کوئی لمحہ لمحہ زندگی سے موت کی طرف بڑھتے ہوئے اِس ’خودکشی‘ کے اسباب و محرکات جانتا ہے لیکن اُس نے تجاہل عارفانہ (مصلحت آمیز خاموشی) اختیار کر رکھی ہے!اب وقت آگیا ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس سلسلے میں موثر اقدامات اٹھا کر ملک کو اس دوچار خطرے سے بچایا جائے کیونکہ دیکھا جائے تو ایک طرف اگر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عوام میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہر فرد انفرادی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالے اور نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ایک صاف اور صحت دوست ماحول دے۔