آنکھوں کی دُکھن

 وہ کہتے ہیں تم اتنے موضوعات کہاں سے لاتے ہو۔ہم نے کہا میں اپنی تحریروں کے لئے خام مواد زندگی سے تلاش کرتا ہوں۔ پھر تلاش بھی کیا کرنا بلکہ انتخاب کرتا ہوں کیونکہ عنوانات کو تلاشنے کی بھلاضرورت کیا ہے۔ یہ تو جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ کیا زندگی پھولوں کی سیج ہے۔یہ تو کانٹوں کا بستر ہے پھر ہمارے ہاں تو زندگی کی تلخی اتنی ارزاں ہے کہ موضوعات ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ایک مصیبت کے پیچھے دوسری مصیبت تاک رہی ہوتی ہے۔لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“۔ معاشرے میں کسی کے کام آ جانا اور اس کی تکلیف کو رفع کرنے کے لئے کوشش سے کام لینا اپنی جگہ ایک راحت ہے۔یہ جو شاعر نے کہا ہے نا کہ زمانے بھر کے غم اور اک ترا غم۔اب اک ترا غم کے زمانے گئے اب تو ہر یک کو اپنی پڑی ہے۔زمانے کے الجھاؤ اور کھینچا تانی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔کتنے عنوانات ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمیں تحریر کی صورت بکھیر دیا جائے تاکہ اس سے عوام فائدہ حاصل کرکے اپنے لئے کوئی الگ راستہ چن لیں۔اگر عالمی سطح پر نظر ڈالیں اور اپنے ملک کے جغرافیہ کو دیکھ لیں تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے پھر اس وقت درجنوں موضوعات ذہن کے دروازے پر آن کھڑے ہوتے ہیں ایک قطار سی لگ جاتی ہے۔کوئی موضوع قطار کو پھلانگ کر اس کو تیاگ کر قریب آیا چاہتاہے کہ مجھے سب سے پہلے ضبطِ تحریر میں لاؤ باقیوں کے ساتھ بعد میں دیکھ لینا کیونکہ میں اندر سے سُلگ رہا ہوں یہ نہ ہو کہیں کسی معاملے میں کسی مسئلے کو آگ لگا دوں لہٰذا میرا حق ہے۔ تمھارا قلم میرا معاملہ دانشوروں اور گلی کے آدمی تک لے جائے۔اگر اپنے ارد گرد کے ممالک اور ان کے علاوہ دور پار کے علاقوں پر نظر کر کے دیکھاجائے تو عنوانات اور موضوعات کی بھرمار ہوتی ہے۔فائلوں کا ایک پلندہ ہوتا ہے جو سامنے بکھرا پڑا ہوتا ہے۔جس کو لے کر بیٹھ جائیں تو قلم میں روشنائی ختم ہو جائے مگر معاشرے پرلگے دھبوں کی سیاہی ختم نہ ہونے پائے گی۔ایک سے ایک بڑھ کر ہے اور جلتا جلاتا ہوا موضوع ہے۔ حساس دل ان مسائل سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں وہ پڑھنا چاہتے ہیں اور ان مسائل کا حل جاننا چاہتے ہیں۔پھر اگر ہمارے اپنے ملکی معاشرے کو لیں تو مسائل جیسے اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں یوں کہ ہر جا نظر جائے ہر مسئلہ سلگتا ہوا انگارہ لگتا ہے کہ جس کو ہتھیلی پر رکھا نہیں جا سکتا کہ ہاتھ جل جائے۔مگر چھوڑا نہیں جا سکتا کہ دوسرے کے ہاتھ کو جلائے۔ کشمکش کی سی کیفیت ہے۔”ہزاروں ہی شکوے ہیں کیاکیاسناؤں۔ کسے یاد رکھوں کسے بھول جاؤں“۔کسی کو بھلانا پڑے تو یاد رکھنا پڑتا ہے کہ موقع ملا تواس کوبھلا دینا ہے کیونکہ بعض حالات میں جہاں یاد رکھنا ایک کمال ٹھہرتا ہے وہاں کبھی حالات کے تحت کسی کو بھلا دینا بھی حد درجہ کمال کاکام ہے۔مگر کچھ مسئلے بھلائے نہیں بھولتے اور کچھ ذہن سے نیچے گر ہی نہیں پاتے۔”وقف ہے ذہن مرا تیرے تصور کے لئے۔تجھ کو بھولا ہی کہاں ہوں جو تجھے یاد رکھوں“۔پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ عنوانات کی بہتات ہے اور اس فراوانی میں ہر معاملہ کو قلم کی تپش بھی تو نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہزاروں عنوانات ایسے ہیں جو اپنی جگہ مسائل کا جداگانہ ذکر چاہتے ہیں۔مگر اس کے باوجود معاشرے کے ضابطے یہ نہیں چاہتے کہ ان پر قلم اٹھایا جائے۔سو وہ تو ویسے کے ویسے ہی ادھورے اورتشنہ کام ِ تحریرو بیان رہ جاتے ہیں۔اس کے بعد جو پوائنٹ باقی بچ جاتے ہیں کہ جن پرقلم آرائی کی جائے ان میں بھی تلاش و خراش کا کام کر کے انھیں موڑ توڑ کر ان کی زہرناکی کی کیفیت کو دورکرکے صفحہ ئ قرطاس پر بکھیرنا پڑتا ہے کہ الفاظ کے یہ نگ روشنی دیں اورماحول کے اندھیروں کو بھگانے میں معاون ثابت ہوں۔اس لئے عنوانات تو اول بہت ہیں اور بہت زیادہ ہیں۔مگر کسی ایک کو لکھا جاسکتا ہے اورایک کو کسی وجہ سے لکھا بھی نہیں جاسکتا اگر عالمی لیول سے نظر بچا کر اپنے قریب کی معاشرت پر نگاہ رکھی جائے تو ہمارے ہاں ہماری اپنی ذاتی گلی کوچے سے لے کر پورے شہر میں گھوم کر دیکھیں تو اس ترقی پذیر رہن سہن کے اندر اتنی زیادہ کوتاہیاں ہیں کہ ہم جو اس کے چارہ گر ٹھہرے ہوں مگر دوسری طرف ہم خود ان کمیوں کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔اس لئے سوچ ہوتی ہے ان کی ذمہ داری کو اپنے اوپر قبول کیاجائے یا ان پرقلم اٹھایا جائے کیونکہ یہاں قلم اٹھایا نہیں اور وہاں دوسرے کالم ریڈر نے خود ہمیں موردِ الزام ٹھہرایا نہیں۔سو ایک گو مگو کی کیفیت ہو تی ہے۔اس میں بچ بچا کر قلم گھسیٹ کر ایک کالم کی شکل تیار کرنا از حد دشوار ہوا جاتا ہے۔’گلی گلی میری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل۔مجھ سے اتنی وحشت ہے تومیری حدوں سے دور نکل“۔اب اسی شعرسے آگے بڑھ کر سوچیں تو گلی گلی مسائل کے انبار پڑے ہیں۔ اگر آنکھیں بند کرنا چاہتے ہوتو ان سے آنکھیں چرا کر رستے کو دیکھ بھال کرچلو۔ورنہ آنکھیں کھولو تویہ آنکھوں کی دکھن کاباعث ہوں گے۔