فوری توجہ کے متقاضی امور

اس وقت ملک میں ایک بار پھر سیاسی گرما گرمی ہے اور حکومت و حزب اختلاف کی طرف سے ایک طرح سے 2023کی الیکشن کیلئے غیر اعلانیہ تیاریوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس وقت دو معاملے ایسے ہیں جن کے الیکشن پراسس پر دور رس اثر ات مرتب ہوتے ہیں۔ایک تو ان انتخابات کا شفاف ہونا ضروری ہے کہ جس کے نتائج پر سب کا اتفاق ہو۔ اگر ایک فریق بھی متفق نہ ہوتو ا س سے  ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے لگتا ہے اور دوسری بات ان انتخابات کیلئے موثر حلقہ بندی کا ہونا ہے۔ جس کیلئے مردم شماری ضروری ہے اور حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے الیکشن نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔اگر یہ پروگرام تو پھر رواں سال ہی اس کا ہونا ضروری ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مردم شماری کا تعلق محض انتخابی حلقہ بندی سے نہیں بلکہ یہ کسی بھی ملک کی ترقیاتی منصوبہ بندی کیلئے از حد اہم ہے۔ ایک عرصہ سے ہماری حکومتیں اس ملک میں ترقیاتی منصوبے اندازوں اور مخمینوں پر بنارہی تھیں اور ظاہر ہے کہ ٹھوس اعداد وشمار کے بغیر جو منصوبہ بندی بھی ہوگی وہ خامیوں سے خالی نہ ہوگی، اس ملک میں ماضی میں کئی مرتبہ مردم شماری کی گئی پر ان پر کئی انگلیاں اٹھیں، خدا کرے کہ مردم شماری کرنیوالے محکمہ نے جو مناسب ہوم ورک کرنا ضروری ہوتا ہے وہ کر لیا ہو۔ دور افتادہ علاقوں، خصوصاً  خیبر پختونخوا کے نئے ضم ہونے والے اضلاع اور بلوچستان میں مردم شماری کرتے وقت کافی احتیاط اور عرق ریزی کی ضرورت ہے، مردم شماری کے کمشنریٹ کے اعلیٰ اہلکاروں نے امید ہے مردم شماری کرنیوالے عملے کومناسب تربیت دینے کا پروگرام وضع کیاہوگا کیونکہ مردم شماری میں اب وقت بہت کم رہ گیا ہے، اس کیلئے جنگی بنیادوں پر ایک کریشن (Crash)تربیتی پروگرام کی ضرورت ہے کہ جو ملک کے ہر ضلع میں منعقد کی جائے جو عملہ مردم شماری کرے گا اسے اس کے مختلف پہلوؤں کی بارکیوں سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، مردم شماری کے اس عمل کی کامیابی کا کافی دارومدار اس بات پر ہوگا کہ مردم شماری کرنیوالا عملہ کس قدر مستعد ہے کیونکہ جو اعداد وشمار وہ مرتب کرے گا آگے چل کر اسی کی بنیاد پر 2023ء کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن ووٹرز کی فہرست کو اپ ڈیٹ (update)کرے گا، انہی اعداد وشمار کے بل بوتے پر ملک کا پلاننگ کمیشن ملک کے آئندہ  ترقیاتی منصوبوں کے خدوخال متعین کرے گا اور ان کی بنیاد پر ہی ملک کے پسماندہ علاقوں کی تربیت کیلئے قومی خزانے سے رقومات مختص کی جائیں گی، حکومت نے یقینا اس بات کا بھی انتظام کیا ہوگا۔جہاں تک ملکی ترقی کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں سی پیک اور گوادر بندرگاہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اس سلسلے میں ہمیں پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی دور اندیشی اور وژن کی داد دینی چاہئے کہ 5 اکتوبر1957ء کو انہوں نے ذاتی دلچسپی لیکر گوادر کا علاقہ حکومت عمان سے 10 لاکھ پاؤنڈمیں  خریدا۔اس وقت ایک بار پھر دنیا سرد جنگ کی فضاء میں ہے جہاں روس، امریکہ اور چین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہے۔ خاص کر چین کے ساتھ امریکہ کا دنیا کے کئی خطوں میں مقابلہ جاری ہے۔جنوبی ایشیاء بھی ان میں شامل ہے۔یہاں پر  امریکہ کی آنکھوں گوادر اور سی پیک کا منصوبہ اس لئے کھٹک رہا ہے کہ اس سے چین معاشی لحاظ سے ناقابل شکست ہوگیا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہے کیونکہ اسکے تحت پاکستان کے اندر جو شاہراہیں بھی تعمیر  ہوئی ہیں اور جو انفرا سٹرکچر بنا ہے  ان کا زیادہ فائدہ چین ہی اٹھائے گا۔سی پیک چین کو بحری سپر پاور بنا دے گا جس سے امریکہ کی سمندروں میں بالا دستی ختم ہو جائے گی اور یہ امکان امریکہ کو از حد پریشان کررہا ہے۔ اس وقت ہماری سینما جس حالت میں ہے وہ قابل رحم ہے ۔سینما کا میڈیم فنون لطیفہ کا اہم حصہ تصور کیاجاتا ہے‘یہ بات بھی البتہ اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ فلم اس قسم کی نہیں بننی چاہئے جو انسان اپنے اہل خانہ کیساتھ بیٹھ کر بلاکسی جھجک کے نہ دیکھ سکے، اس بات کو جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے، سنسر شپ کوئی نئی شے تو نہیں یہ تو عرصہ دراز سے موجود ہے، فلموں کے رسیا اس بات کے گواہ ہیں کہ 1935ء اور 1965ء کے دوران جتنی بھی فلمیں تخلیق ہوئیں ان میں 99فیصد ایسی ہوتی تھیں کہ جو خاندان کے تمام افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عریانیت سے پاک ان فلموں نے باکس آفس پر کافی بزنس بھی کیا‘ پاکستانی فلمیں جو 1940ء اور 1965ء کے عرصے میں تخلیق ہوئیں ان کو بھی ملک کے سینما گھروں میں باری باری چلایاجائے تاکہ نئی نسل کو پتہ چلے کہ اچھی اور معیاری فلموں کی تعریف کیا ہوتی ہے، معیاری مکالمے کیسے ہوتے ہیں؟ اچھی موسیقی کی پہچان کیا ہے؟