ایک طرف شہر میں وسعت آ رہی ہے۔دوسری طرف اندرون شہر تنگی بڑھتی جا رہی ہے۔شہر کے مشہوردروازوں کے بیچوں بیچ شہر کسی حاسد کی تنگ نگاہ کی طرف روز بروز سمٹ رہا ہے۔جبکہ شہر کے انھیں دروازوں کے باہر قریب قریب یہی تنگی پھیلتی جا رہی ہے۔مگر تھوڑا دور شہر جیسے وسعت ِ داماں کو بھاگا جا رہا ہے۔اندرون تو جیسے تِل دھرنے کی جگہ نہیں۔جانے یہ لوگ کیسے اس محدود دائرے میں زندگی گذار رہے ہیں۔ بلکہ زندگی کو گذار رہے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ جو سمجھ دار ہیں وہ شہر کی تنگ دامانی کے احساس کے پیش نظر اپنی جائیدادیں بیچ باچ کر نئی بستیاں بسانے کو شہر کے بیرون میں جا مقیم ہوئے ہیں۔جو اب بھی اندر ہیں وہ اپنے پُرکھوں کی نشانیاں وہ گھر اس حویلی نما رہائش کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔وہ اگرچہ کہ اس گھٹن کو کشادگی سمجھتے ہوں مگر جو لوگ شہر سے باہر زندگی کر رہے ہیں وہ تو اس کشادگی نما تروتازگی کو جو صرف نام کو ہے جینے کے لئے زہر قرار دیتے ہیں۔بھلا مرلہ دو مرلہ کے گھرمیں اوپر نیچے کی منزلوں میں تنگی تُرشی سے زندگی گذارنا کیا معنی رکھتا ہے۔جو باہر ہیں وہ اب اندر نہیں جانا چاہتے اور جو اندر ہیں وہ باہر جانے سے گریزاں ہیں۔ بعض کو تو ان کے گھر کے فروخت کی اچھی آفرمل رہی ہیں۔ مگر وہ پھر بھی شہر کے اندرون میں رہائش پر ضد کر رہے ہیں۔ حالانکہ گلی کے باہر کے دکاندار ان کو خاصی موٹی رقم دے کر دو تین مرلے کے اس گھر کو خرید کو اس میں اپنا مال گودام ترتیب دینا چاہتے ہیں۔پھر شہروں کے اندر جس کو ہم تنگی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مکانات ڈھا کر اندر اندر ایسی مارکیٹیں بنائی جا رہی ہیں کہ بندہ حیران ہو تا ہے۔وہ یہ کہ اتنے سے تنگ و تاریک مکان کو تو ہم زندگی بھر دیکھا کئے۔مگر اب اس چھوٹے سے مکان کے پیچھے کا اتنا وسیع رقبہ ہے کہ آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں۔کبھی ہم نے یہاں سے عمر بھر گذرتے ہوئے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ا س مختصر سے مکان میں سے وسعت کی اتنی گنجائش نکل آئے گی۔ بہر حال شہریوں کی اپنی مرضی پر بھی منحصر ہے۔پھر وقت جب بدلتاہے تو آدمی کو اس کے ساتھ ساتھ بدلنا چاہئے۔ وگرنہ انسان پیچھے رہ جائے گا اور زمانہ آگے نکل جائے گا۔حالات و واقعات کے مطابق اپنے آپ کو موڑ لینا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔وگرنہ بندہ اگر حالات کو دیکھ کر اپنا زاویہ نہ بدل سکے تو جلتا کڑھتا رہتا ہے۔شہر کے اندر کا حسن و جمال اور دل کشی و رعنائی اور دیدہ زیبی اپنی جگہ۔مگر جب بال بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے گھرکا صحن اور اس کے گرد کمرے یا اوپر نیچے کے گھرمیں منزلیں کم پڑجاتی ہیں۔سو وہ مجبور ہو کر مکان کو فروخت کر کے اس جیسی کافی بڑی رہائش شہر سے باہر خرید لیتے ہیں۔خدا جانے اب شہر کس حد تک وسعت اختیار کر تا ہے۔دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔لوگ اب تو بہ امرِمجبوری بھی شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔ کیونکہ تنگی کے نام پر اور بہت سے مسائل کا سامناکر رہے ہیں۔ جہاں انسانی بستیاں زیادہ ہوں وہا ں گند بھی زیادہ ڈالا جاتا ہے۔پھر شہریوں میں اتنا سینس ابھی تک بحال نہیں ہو سکا کہ اول تو جا بے جا گند نہ ڈالا جائے۔ گند اگر ہاتھ میں ہے تو اسے یونہی راہ میں نہیں پھینکیں بلکہ کوڑے کے بڑے ڈمپرمیں یا ڈرم میں ڈالیں۔ اس قسم کے اور بہت سے معاملات ہمارے سامنے ہیں جن کو ہم نے اگرکنٹرول نہیں کر سکناتو شہر کی تنگی کا گلہ ہر جگہ سے وصول بھی ہوگا اور موصول بھی ہوگا۔ انسانی آبادی کا ایک جگہ زیادہ ہوجانا بھی صحت کے حساب سے درست نہیں۔