روسی گیس اور یورپ کی توانائی ضروریات

یوکرین میں روس کے متوقع حملے کے بعد روس اور امریکہ و نیٹو ممالک کے مابین کشیدگی بڑھ سکتی ہے تو کیا اس کے بعد روس کی جانب سے یورپی ممالک کو گیس اور تیل کی ترسیل منقطع ہوجائے گی؟ اس کے اثرات کیا ہوں گے اور کیا یورپ ان سے نمٹ سکے گا؟امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یوکرین پر حملے کی صورت میں روس پر سخت پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ فرانس، جرمنی اور پولینڈ وغیرہ نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین میں مزید دراندازی کی تو اسے اس کے سیاسی، معاشی اور تزویراتی نتائج بھگتنے ہوں گے۔روس یورپ کو توانائی فراہم کرنے والا اہم ذریعہ ہے۔ جرمنی نے اشارہ دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو وہ روس کی جانب سے ایک نئی گیس پائپ لائن نارڈ سٹریم دوم، جو گیارہ ارب ڈالر سے مکمل ہوا ہے مگر ابھی چالو نہیں ہوا، کو روک سکتا ہے۔ تاہم روس کو یقین ہے مغربی ممالک ایسے اقدامات نہیں اٹھائیں گے جس سے انہیں گیس کی فراہمی ختم اور ان کی صنعتیں بند ہوسکتی ہیں اور نہ ہی وہ جلد توانائی کا کوئی متبادل انتظام کرسکتے ہیں۔ادھر امریکہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ایشیا کے گیس اور خام تیل فراہم کنندگان کے ساتھ کام کر رہا ہے کہ روس کی جانب سے توانائی کی فراہمی میں تعطل کی صورت میں یورپ کو درکار مقدار میں توانائی کی فراہمی جاری رہے۔ امریکہ کوشش کررہا ہے کہ جس طرح 1948 اور 1948 میں سویت یونین نے مغربی جرمنی کی ناکہ بندی کی تو برلن فضائی اٹھان کے نام سے امریکہ نے مغربی جرمنی کو سپلائی جاری رکھی، یورپ کو پھر گیس فراہمی بلاتعطل جاری رہے۔ واضح اس واقعے کے بعد نیٹو بھی وجود میں آیا تھا۔امریکی صدر نے کہہ دیا ہے کہ وہ یوکرین کے دفاع کیلئے امریکی فوج استعمال نہیں کرے گا تاہم روس نے کہا ہے امریکہ اسے جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔اگرچہ روس یوکرین پر حملے کے ارادے سے منکر ہے مگر اس نے امریکہ کو اس کے خط کے جواب میں کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ نے اس کے مطالبات، جن میں مشرقی یورپ میں نیٹو کی موجودگی کم کرنا شامل ہے، نہیں مانے تو وہ کوئی فوجی اقدام کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔یورپ کی گیس ضروریات کا تقریباً چالیس فیصد روس پوری کرتا ہے۔ اس گیس فراہمی کے پائپ لائن یوکرین اور بیلاروس سے گزرتے ہیں۔ پچھلے چند مہینوں سے یوکرین معاملے پر روس اور نیٹو ممالک میں کشیدگی کے بعد ان گیس پائپ لائنوں میں یورپ کو گیس فراہمی میں مسلسل کمی کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے جرمنی، ہنگری، لیٹویا، فن لینڈ، پولینڈ، فرانس اور اٹلی وغیرہ بالترتیب زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اس گیس سے وہاں کروڑوں گھر گرم، بجلی پیدا اور کارخانے چلائے جاتے ہیں۔ گیس فراہمی میں تعطل یورپ بھر کی صنعتوں کیلئے بڑا کاری ضرب ہوگا۔ اس سے توانائی کی قلت اور مہنگائی پیدا ہوگی، کئی صنعتیں بند ہوجائیں گی اور اربوں ڈالر کے گیس معاہدے رک جائیں گے۔ یورپی ممالک کا خیال ہے کہ صدر پیوٹن نے موسم سرما میں یہ بحران ارادتاً پیدا کیا ہے تاکہ وہ روس کی بات ماننے پر مجبور کرنے کیلئے یورپ کو گیس سپلائی بند اور صنعتیں بند ہونے سے ڈرا سکیں۔کچھ ممالک جیسے پولینڈ اور لتوانیا روسی گیس پر اپنا انحصار بتدریج کم کررہے ہیں مگر دوسرے ممالک جیسے جرمنی اور ہنگری وغیرہ کا روسی گیس پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ یورپ میں دو درجن سے زیادہ ایل این جی ٹرمینل بھی ہیں جن میں پولینڈ، ہالینڈ اور بلجیم والے بھی شامل ہیں۔ جرمنی کی تقریبا دوتہائی توانائی ضروریات کا انحصار روسی گیس پر ہے۔ اسے قدرتی گیس روس سے نارڈ سٹریم پائپ لائن سے ملتا ہے۔ نارڈسٹریم دوم مکمل ہے مگر ابھی ابھی چالو نہیں ہوا کیوں کہ امریکہ سمیت جرمنی کے یورپی اتحادی اس پر تنقید کررہے ہیں کہ اس سے جرمنی اور یورپ کا روسی گیس پر انحصار بڑھ جائے گا۔  تازہ بحران کے تناظر میں  پیش بندی کے طور پر جرمنی نے گیس سے چلنے والے اپنے بہت سے ایٹمی پلانٹس بند کردئیے ہیں جو بجلی پیدا کرنے کیلئے درآمد شدہ گیس پر منحصر ہیں۔ اب جرمنی اپنے شمالی ساحل پر ایک ایل این جی ٹرمینل بھی بنانے کا ارادہ کرچکا ہے۔ جرمنی یورپ میں امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی تھا۔ روس کے ساتھ بھی اس کے خصوصی تعلقات تھے اور وہ مشرقی اور وسطی یورپ کے لیے ایک اہم شراکت دار تھا۔ آج امریکہ میں کچھ لوگ روس کا مقابلہ کرنے کیلئے جرمنی کی آمادگی پر شک کرتے ہیں اور روس کے ساتھ برلن کے تعلقات بھی خراب ہو رہے ہیں۔لیکن یورپ کو اگر روسی گیس اور تیل درکار ہے تو روس کو ان کے فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی۔ یورپ کو توانائی ترسیلات روسی معیشت کا تیس فیصد اور اس کی برآمدات کا ساٹھ فیصد ہیں چنانچہ تجزیہ کاروں اور صنعتوں کے منتظمین کے خیال میں روس بھی اس آمدنی سے محروم نہیں ہونا چاہے گا۔ مگر یاد رہے یہ بحران ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب یورپی ممالک کے ساتھ گیس ذخائر کم ہیں، سردی کی وجہ سے کھپت زیادہ ہے اور اکثر یورپی ممالک معدنی ایندھن سے ہوائی، شمسی اور دوسرے صاف توانائی ذرائع پر منتقل ہونے کی خواہش میں عبوری طور پر گیس پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر مغربی ممالک کو توانائی بحران سے بچانے کیلئے امریکا نے قطر سے مدد مانگ لی ہے تو روس نے بھی گیس برآمدات بند ہونے کی صورت میں متوقع مالی نقصان سے بچنے کیلئے چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے ایل این جی فروخت کا معاہدہ کرلیا ہے۔امریکہ نے قطر سے یورپ کی گیس ضروریات پوری کرنے کا کہا ہے۔ لیکن قطر بھی یورپ کی تمام گیس ضرورت پوری نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ پہلے ہی مکمل پیداواری صلاحیت کے ساتھ گیس پیدا کررہا ہے اور وہ اپنی پیدا کردہ گیس مختلف ممالک کو معاہدوں کے تحت بھیجنے پر مجبور ہے۔ واضح رہے یورپی مسابقتی کمیشن نے قطر کی سرکاری توانائی کمپنی قطر انرجی کے خلاف 2018 میں تحقیقات شروع کی تھیں جو اب روک دی گئی ہیں۔ اس طرح یورپی یونین اور قطر کے مابین گیس فراہمی کا راستہ کھل گیا ہے۔ امکان ہے کہ اول تو روس گیس فراہمی معطل نہیں کرے گا مگر ایسا ہونے کی صورت میں ہالینڈ، جاپان، قطر، امریکہ سے ایل این جی درآمدات میں اضافے، متبادل توانائی ذرائع کے استعال اور گیس کھپت میں کمی کے ذریعے یورپ اس بحران سے نمٹنے میں کامیاب ہوسکے گا۔ تاہم مستقل طور پر توانائی بحران کے تدارک کیلئے یورپ کو فوجی صلاحیتوں اور توانائی ذرائع میں سرمایہ کاری اور سماجی ہم آہنگی یقینی بنانا ہوگی۔