دو فروری دوہزاربائیس: عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے ’ایبٹ آباد بینچ‘ نے گیارہ صفحات کا فیصلہ جاری کیا‘ جس میں متعلقہ حکام (الیکشن کمیشن) کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”خراب موسم اور برفباری جیسے جواز کی بنا پر انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔“ قبل ازیں الیکشن کمیشن نے درخواست کی تھی کہ خیبرپختونخوا کے اُن باقی ماندہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ماہئ رمضان المبارک (یعنی یکم مئی دوہزار) کے بعد منعقد کیا جائے کیونکہ وہاں کے موسمی حالات انتخابات کیلئے موافق نہیں۔ توجہ طلب ہے کہ جب مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو پہلے اور دوسرے مرحلے کیلئے اضلاع کا انتخاب کرتے ہوئے خاطرخواہ مشاورت اور اُن موسمیاتی زمینی حالات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے ایبٹ آباد کی 3 تحصیلوں کیلئے اُمیدواروں کی فہرست جاری کی ہے‘ جس میں تحصیل نظامت (میئرشپ) کیلئے کوئی بھی خاتون اُمیدوار نہیں ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایبٹ آباد ’ہزارہ ڈویژن‘ کے اُن 7 اضلاع میں شامل ہے جہاں 31 مارچ کے روز ’مقامی حکومتوں‘ کے نمائندوں کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا چونکہ ہزارہ ڈویژن اور بالخصوص ایبٹ آباد میں شرح خواندگی نسبتاً زیادہ ہے اِس لئے توقع کی جا رہی تھی کہ سیاسی جماعتیں اور آزاد حیثیت سے خواتین بطور اُمیدوار سامنے آئیں گی اور اِس بات کی توقع (اُمید کا اظہار) اِس لئے بھی کیا جا رہا تھا کیونکہ دیگر اضلاع کے مقابلے ایبٹ آباد میں خواتین سیاست میں زیادہ فعال اور نمایاں ہیں جیسا کہ تحریک انصاف کی ایک رکن صوبائی اسمبلی (عظمیٰ ریاض جدون) اور دو اراکین صوبائی اسمبلی مومنہ باسط‘ ملیحہ علی اصغر خان خواتین کیلئے مختص نشستوں پر قانون ساز ایوانوں کا حصہ ہیں جبکہ ایسی خواتین بھی ہیں جو ماضی میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی رہیں اور اب بھی سیاسی اجتماعات میں نظر آتی ہیں لیکن اُنہوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کو خاطرخواہ اہمیت (توجہ) نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی ادارے کسی بھی سیاسی کارکنوں کیلئے ”بنیادی تربیت گاہ“ ہوتے ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کی اہمیت اور افادیت کا اقرار تو سبھی کرتے ہیں لیکن اِس محاذ (فرنٹ لائن) پر کارکردگی کی صورت ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور شوق و ذوق سے سرشار سپاہی شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے باقی ماندہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہونے سے درحقیقت جمہوری نظام کی تکمیل ہوگی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس نظام کی کامیابی کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کس قدر خلوص (تعاون) کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔جہاں تک بلدیاتی نظام کی اہمیت کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کی اس شکل میں عوامی مسائل کا حل پوشیدہ ہے اور یہاں پر مستقبل کی سیاسی قیادت کی تربیت ہوتی ہے کہ کس طرح عوامی بہبود کو سیاست کا حصہ بنایا جائے۔