عالمی منظرنامہ

یہ بہت اہم خبر ہے کہ صدر مملکت  نے پاکستان الیکٹرانک ایکٹ اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کردیا جس کے بعد اب جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک سزا دی جاسکے گی۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم  گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس حوالے سے میڈیا کو بتایا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے تحت کوئی بھی انتخابی مہم چلا سکتا ہے، اور یہ قانون سب کیلئے ہوگا،جہاں تک جعلی خبروں کے حوالے سے آرڈیننس کا تعلق ہے تو یہ کئی حوالوں سے اہم ہے کیونکہ یہ میڈیا وار کا دور ہے جہاں پر کسی ملک کو کمزور کرنے اور اس پر حملہ کرنے کیلئے اب فوج اور جہازکی بجائے وہاں پر ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ جس سے عوام میں بے چینی اور مایوسی پھیل جائے یا عوام میں تفرقہ پیدا ہو اور اس سے دشمن ملک فائدہ اٹھائے۔وزیر قانون کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ قانون ضروری تھا، جھوٹی خبر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے تو کیا بنے گا۔وزیر قانون  یا یہ کہنا بھی بجا ہے  کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن  اگر اس آڑ میں کچھ لوگ ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چا ہیں تو یقینا اس کے امن و امان پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اب جعلی خبر پر 3 سال کی جگہ 5 سال تک سزا ہوسکے گی اور  جعلی خبر دینے والی کی ضمانت بھی نہیں ہوگی جبکہ فیک نیوز پر 6 ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس آرڈیننس کا اجرا وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ اب میڈیا بہت پھیل گیا ہے اور یہ محض اخبارت اور چند ایک ٹی وی چینل تک محدود نہیں رہا بلکہ یو ٹیوب اور سوشل میڈیاکے دیگر پلیٹ فارم نے معلومات کی ایک اور دنیا بسا دی ہے۔ اب یو ٹیو ب پر لاتعداد چینلز لانچ کئے جا سکتے ہیں اور ان سب کو ایک قاعدے اور قانون کا پابند بنانا اس لئے ضروری ہے کہ اگر جس کا جو جی میں آئے اور کہے تو اس سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوسکتا ہے۔ جس کا تدارک ازحد ضروری ہے۔ ا ب کچھ تذکرہ عالمی منظرنامے کا ہوجائے جہاں اسرائیل نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے عالمی ادارے کے ساتھ فلسطینیوں پرکئے گئے مظالم کے حوالے سے جوابدہی سے انکار کر دیا ہے۔فلسطینیوں پر مظالم کی تفتیش میں اسرائیل کا تعاون سے انکار کوئی نئی بات نہیں بلکہ شروع دن سے ہی اسرائیل نے اپنے آپ کو عالمی قوانین اور قواعد سے بالاتر سمجھا ہے اور اس کی وجہ چند عالمی طاقتوں کی طرف سے اسے ہر طرح کے تعاون اور پشت پناہی حاصل ہونا ہے۔حال ہی میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف مبینہ زیادتیوں کی تفتیش کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ وہ تعاون نہیں کرے گا۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گزشتہ سال غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روزہ جنگ کے بعد مئی میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس جنگ میں 260 سے زائد فلسطینی  شہید ہوئے جبکہ اسرائیل کے 14افراد بھی مارے گئے تھے۔اس وقت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل باشیلیٹ نے کہا تھا کہ اسرائیلی کارروائیاں، جن میں شہری علاقوں میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ اس کے بعد سے ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔دوسری طرف یوکرین اور روس کا تنازعہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے اور ایک طرف اگر بات چیت کا آپشن کھلا رکھا گیا ہے تو دوسری طرف یوکرین نے نیٹو اور امریکہ سے مزید مدد طلب کی ہے۔ اور جرمنی میں ایک عالمی کانفرنس کے موقع پریوکرین کے  صدر ولادیمیر زیلنسکی  نے مغربی دنیا سے تحفظ کی نئی یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا ہے۔یوکرین کے صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کے مشرقی علاقوں میں روسی حمایت یافتہ باغیوں سے لڑائی میں شدت دیکھی گئی ہے۔تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مغربی رہنماوں سمیت دنیا بھر کو پیغام دیا ہے کہ ان کا ملک روس کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔واضح رہے کہ یوکرین کی فوج اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان تین دن سے جاری جھڑپوں میں یوکرین کے دو فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کو اس بات کا یقین ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے لیکن روس نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔مغربی ممالک کی جانب سے روس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ یوکرین کے مشرقی علاقوں میں بحران پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے باقاعدہ حملے کا جواز مل سکے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ یوکرین پر روس کے حملے کی آفواہیں اڑاکر یورپ کو جنگی کیفیت کا شکار کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ روس کے مقابلے میں یورپ کو کھڑا کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ جبکہ اکثر یورپی ممالک جنگ کے حق میں ہیں اور نہ ہی وہ رو س کے مقابلے میں آناچاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں یوکرائن کا تنازعہ امریکہ کے لئے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ روس یوکرائن کے ساتھ محدود پیمانے پر جنگ کی طرف جائے جس کی آڑ میں امریکہ اور یورپ روس کے خلاف سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کرکے اس کی معیشت کو نقصان پہنچائیں۔