سو دی قرضوں سے نجا ت


 فروری کا مہینہ نئے بجٹ پر کا م شروع کر نے کا مہینہ ہے اس ما ہ نئے ما لی سال کے بجٹ کا خا کہ تیار ہو تا ہے اگلے تین مہینوں میں بجٹ کی نوک پلک سنوار کر پوری بجٹ دستا ویز تیار کی جا تی ہے عموماً جو ن کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جا تا ہے ہر سال بجٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ پرانے قر ضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد بچ جا نے والے آمدن میں سال کس طرح گذارا جا ئے اس کا آسان حل یہ ہے کہ مزید قرضہ لیا جا ئے عموماً ایسا ہی ہو تا ہے اسلا م آباد میں اس وقت یہ بات زیر بحث ہے کہ قر ضوں کے جا ل سے نجا ت کس طرح ملے گی؟ کو نسا راستہ اختیار کیا جا ئے کہ مو جو دہ قرضہ ادا ہو جا ئے آئندہ قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے اس کا آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ ملک کے 200کھرب پتی خا ندان آگے آکر ملک کے ذمے قرضہ ادا کریں صرف سیالکوٹ شہر کے صنعتکار وں نے دو سے زیا دہ مواقع پر اپنے سرمائے سے حکومت کی مدد کا فریضہ انجا م دیا ہے اگر ایک شہر کے صنعتکار حکومت کی مدد کر سکتے ہیں تو ملک کے 12صنعتی اور تجا رتی شہروں کے صنعتکار اور تا جر آگے آکر اپنا کر دار ادا کریں تو ملک کے ذمے واجب لادا قرضوں سے قوم کو نجات دلا ئی جا سکتی ہے اور یہ کا م مشکل نہیں اسلام آباد کے جو حلقے ان خطوط پر سوچ رہے ہیں  ان حلقوں میں اس بات پر تشویش ظا ہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان 50کھرب روپے کا قرض دار ہوا ہے پا کستان کی کل آمدن کا 85فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے بجٹ بنا نے والے بقا یا 15 فیصد پر مزید قرض لیکر وسائل فراہم کرتے ہیں اگر مزید قرضہ نہ لیا جا ئے تو ملک چلا نا ممکن نہیں ہو تا، ہر سال یہ مسئلہ پیش ہو تا ہے اور ہر سال اس کا یہی حل نکا لا جا تا ہے اس  چکر سے با ہر آنے کے دو سے زیا دہ راستے ہوسکتے ہیں تا ہم سیا سی مصلحتوں اور جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر دو ممکنہ راستوں پر غور کرنا منا سب ہو گا پہلا راستہ یہ ہے کہ امپورٹ میں کمی کی جا ئے با ہر کے ملکوں سے عیش و عشرت کیلئے منگو ا ئی جا نے والی قیمتی سامان اور گا ڑیوں کی در آمد پر مکمل پا بندی لگا ئی جائے اس اقدام سے زرمبا دلہ کی بچت ہو گی اور ملکی معیشت کو استحکا م ملے گا دوسرا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ اندرون ملک محاصل جمع کر نے کے نظام میں اصلا حا ت کے ذریعے محا صل کو دگنا کیا جائے تا کہ ملکی دفاع، ترقی‘ خوشحا لی اور دیگر امور ملکی وسائل سے حل ہو جا ئیں یہ دونوں اقدامات بیک وقت اٹھا ئے جا سکتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خواتین کے میک اپ سے لیکر دولت مند گھر انوں میں کتے اور بلی کی  خوراک تک 228غیر ضروری اشیا ء بیرونی ملکوں سے درآمد کی جا تی ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے غیر ضروری درآمد ات پر پابندی لگا ئی ہے ان کی ملکی آمدن کا صرف 20فیصد قر ضوں کی ادائیگی پر لگتا ہے باقی 80 فیصد ملکی تر قی پر لگا یا جا تا ہے اخباری رپورٹوں کے مطا بق سال 2022-23کے بجٹ میں کئی انقلا بی اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں ان انقلابی اقدامات کو کا میاب بنا نے کیلئے 50 کھرب روپے کے قر ضوں کا مو جو دہ بوجھ گردن سے اتار نا ہو گا، صنعت و تجا رت سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ صنعتکار وں کا تعاون حا صل کر کے 200بڑے سر ما یہ داروں کو پاکستان کا قرضہ اتار نے پر ما ئل کرنے کیلئے سیاسی تنا ؤ کی کیفیت کو ختم کر کے کاروباری طبقے کا اعتما د بحا ل کرنا ہو گا اعتما د کی بحا لی کے بعد ملک کے صنعت کار اور تا جر دست  تعاون بڑ ھا نے پر آما دہ ہو جائینگے تناؤ اور دباؤ کے ما حول میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا  اور یہ قدم جس قدر جلد اٹھایا جائے اس قدرملک و قوم کے مستقبل کے لئے بہتر ہے۔