شادی کارڈ پر بارات اور ولیمہ کا اپنامقررہ وقت لکھا ہوتا ہے۔ مگرشادی ہال میں یہ شہری لوگ اپنے وقت پر کب آتے ہیں۔ مگر کوئی بھولے سے اپنے وقت پر آ جائے توجیسے پنجرے میں جیسے قید ہو جاتا ہے۔ جلتا کڑھتا ہے۔قفس کی تیلیوں سے نئے گرفتا رپرندے کی طرح الجھتا ہے۔دیکھتا ہے کہ شادی ہال پر سناٹا طاری ہوتا ہے۔ لگتا ہے ہم شادی میں نہیں آئے کسی اجنبی دیار میں قدم رکھ دیا ہے۔جہا ں بندہ نہ انسان سب کچھ سنسان۔ شادی ہال کے گیٹ پر انتظامیہ سے پوچھنا پڑتا ہے۔یہاں آج بارات ہے۔وہ کہتا ہے جی ہاں۔ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔پھر شادی میں شرکت کرنے والے کہاں ہیں اور جو شادی کے گھر والے ہیں وہ کون سے دیس چلے گئے ہیں۔دل میں خیال آتا ہے کہ کہیں بارات آکر چلی نہ گئی ہو ہم دیر سے نہ پہنچے ہو ں۔مگر ماحول میں اس قسم کے آثا رمحسوس نہیں ہوتے تھے۔ہر کوئی تو فارغ نہیں ہوتا۔ کسی کو فرصت ہوتی ہے اور کسی کو نہیں ہوتی۔ میں ایک ہال میں پہنچا.وہاں نہ کوئی بینڈ باجا نہ کوئی ڈھول تماشا اور نہ گانا جو سپیکروں میں سے سیلابی ریلے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر نکل کر ماحول کو پراگندہ کر رہاہو۔ایک سکوت طاری تھا۔ شاید یہ لوگ سادگی سے پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کوئی ہوتا تو ڈیک کے بجلی کا شو لگا کر موسیقی تو آن کرتا۔ ہم وہاں بیٹھ گئے۔ اگر اس شادی ہال میں سب سے پہلے شرکت کو آنے والے اول انعام یافتہ کا ذکر ہو تو وہاں مجھ سے پہلے ایک سابقہ ناظم تشریف فرما تھے۔ہم نے سوچا ہماری مصروفیات کی طرح یہ صاحب بھی بہت مصروف ہیں۔مگر اگلے ہی لمحے یہ خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دل میں کوند گیا۔ یہ کہ ہم مصروف کہاں کے۔ہم تو بہت فارغ ہیں جو یہاں چلے آئے۔ان صاحب کو دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی کہ چلو ”اک ہم ہی نہیں تنہامحفل میں تیری رسوا“۔ وہ صاحب استقبالیہ کے صوفے میں دھنسے ہوئے بیٹھے تھے۔ کیونکہ اندر ہال میں جا کر وہ کیا کرتے اور ہم کیا کرتے۔اندر تو ایک ہُو کا عالم تھا۔سناٹا ایسا تھا جیسے بارات کا کھانا کھا کر لوگ کب کے جا چکے ہیں۔ ہم یہا ں بہت دیر پہنچے ہیں۔ مگر کہاں۔ہم تو شادی کے گھر والوں کے دیئے ٹائم پر پہنچے تھے۔ مگر آنکھیں سوالی نگاہوں سے ان میں سے کسی ایک کو بھی تلاش کر رہی تھیں۔مگر لگتا تھا کہ ”اب یہا ں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“ ہم بھی پھنس چکے تھے۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ گھر جا کر گھر والیوں سے رات کا کھانا مانگتے ہوئے شرم محسوس ہو تی۔ سویہیں پیٹ پوجا کرنے کا سوچا او رڈھیٹ بن کر بیٹھ رہے۔سوچ میں تھے کہ آخر شادی کارڈوں پر جو وقت لکھا جاتا ہے وہ ٹائم ان لوگوں کو کیوں نہیں بھاتا۔حرام ہے کہ گھنٹہ گذر جانے کے بعدبھی شادی کے شادیانے بجانے والوں اورشادی کے گھروالوں کا کوئی ایک نمائندہ کہیں بھولے سے دکھائی پڑتا ہو۔پھر جو لطیفہ ہے وہ یہ ہے کہ شادی کارڈ پریہ بھی لکھا تھا کہ وقت کی پابندی ضروری ہے۔اسی سے تو ہم نے دھوکا کھایا۔ دل نے کہا جب دھوکا کھایا تو اب کھانابھی کھا۔ اس وقت دل کی مراد بھر آئی جب دو ایک آدمی نظر آئے جو بارات کے انتظام کرنے والے تھے۔ وہ ناظم صاحب کے ساتھ ملے اور دو ایک منٹ گفتگو اور ہنسی کے بعد حاضری لگ گئی تو وہ گراں قدر شخصیت وہاں سے رخصت ہوگئی۔پھر آہستہ آہستہ اکا دکا بندوں کو دیکھا جو اندر آرہے تھے۔ہم تو ناظم نہ تھے کہ دوسری جگہ جا کر شایدکھانا تناول کرنے والے ہوں۔غریب آدمی ہیں اگر یہاں کھانا مل گیا تو ٹھیک وگرنہ ہمیں کون پوچھتا ہے۔دو ایک بندوں کے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں معدہ میں ہلچل پیدا ہوناشروع ہوئی اور پیٹ میں چوہے نہ چاہتے ہوئے بھی دوڑنا شروع ہوگئے۔پھریہ ہوا کہ نفری زیادہ ہوئی تو اب میوزک کی ٹھن ٹھناٹھن اوردھن دھنا دھن کی آوازیں ابھرنا شروع ہوئیں۔معلوم ہوا کہ بارات کے پروگرام کا چارج سنبھالا جا چکا ہے۔پھر سردیوں کی رات کے آٹھ بجے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد تک ہال فل بھر گیا تو کہیں جاکر کوئی امید جو بر نہیں آتی تھی بر آنے لگی۔