ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اسرائیلی حکومت پر نسل پرستی اور فلسطینی عوام کے خلاف بڑے مظالم کا الزام لگایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں‘ اِن کی ملکیتی اراضی پر قبضہ‘ ملکیتی اراضی کی حیثیت میں تبدیلی‘ فلسطینیوں کی گرفتاریاں اور مشرقی یروشلم کے مغربی کنارے کے دیگر حصوں اور غزہ کی پٹی میں فلسطینوں کو تسلیم شدہ اور حاصل حقوق کی عدم فراہمی جیسے اقدامات ”نسل پرستی“ کے مترادف ہیں۔ عالمی تنظیم نے اسرائیل کی جنوبی افریقہ سے بدتر نسل پرستی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’نسل پرستی (اپارتھیڈ)‘ ایسے سلوک کو کہا جاتا ہے جس انسانی حقوق کی خلاف ورزی اُور ”جرم“ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی کی مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو ’یکساں شہریوں‘ کے حقوق حاصل نہیں اُور اسرائیل کی ریاست فلسطینوں سے امتیازی سلوک کرتی ہے اُور انہیں کم درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جنہیں اسرائیلیوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ایمنسٹی رپورٹ پر اسرائیلی (صیہونی) حکومت اور اس کے حامی ممالک و تنظیموں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آیا ہے اور انہوں نے اِسے ”یہود مخالف بیانیہ“ قرار دیا ہے لیکن ایمنسٹی رپورٹ کو یوں مسترد کرنا آسان نہیں جبکہ دنیا اسرائیلی جارحیت‘ تعصبات اور مظالم سے آشنا ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ ناجائز اسرائیل نہ صرف خود ظالم ہے بلکہ وہ اپنے جیسے ظلم کرنے والے ممالک کی حمایت بھی کرتا ہے جیسا کہ بھارت میں کشمیری و دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کیلئے اسرائیل اسلحہ اور دیگر آلات بھارت کو فراہم کرتا اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف مظالم کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ایمنسٹی رپورٹ کا یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ اِیسی ہی رپورٹ بھارت کے بارے میں بھی شائع ہوئی ہے جس میں ایمنسٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسرائیل بارے رپورٹ میں ایمنسٹی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک محفوظ اور زیادہ مساوی وجود اور جواز فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ اس تناظر میں تفصیلی رپورٹ جو فلسطینیوں‘ اسرائیلیوں اور بین الاقوامی ماہرین نے مرتب کی ہے‘ اس میں اسرائیلی زیادتیوں کی ایک طویل فہرست بھی فراہم کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو ممالک اسرائیل کو اسلحہ اور دیگر قسم کی امداد فراہم کرکے اس کی حمایت کر رہے ہیں اُنہیں اپنے عمل پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اسرائیل کی مالی و سفارتی مدد روکنی چاہئے تاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف مظالم سے باز آئے۔ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک اجتماعی طور پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم پر خاموش ہیں جبکہ ضرورت اُن سبھی ناقابل تردید حقائق پر متفقہ و مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوئے 72 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور فلسطینیوں کی خالی ہاتھ مزاحمت اور اِن کا صبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے‘ جن کی مظلومیت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِسرائیل کو اِنسانی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ قوانین اور قواعد کی پاسداری کرنی چاہئے اور اُن سبھی مظالم سے ہاتھ کھینچنا چاہئے جو انسانیت کے دامن پر داغ ہیں۔ ارض فلسطین‘ ارض اسلام ہے‘ جس کی غیر انسانی ناکہ بندی ختم ہونی چاہئے۔ یہ مسلمان ایک طرف بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف اُن پر گولیاں اور گولہ بارود برسایا جا رہا ہے! درحقیقت ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذکورہ رپورٹ ایسی پہلی اطلاع نہیں بلکہ اسرائیل کے جاری مظالم کا سلسلہ شروع دن سے جاری ہے جس کا مقابلہ اور سامنا کرنے والوں کے پاس نہ تو اپنا دفاع کرنے کی تربیت ہے اور نہ ہی آلات اور وسائل۔ اسرائیل کے خلاف منظم مزاحمت کرنے والی تنظیمیں بھی زیادہ سے زیادہ راکٹ‘ لاٹھیاں اور پتھر ہی استعمال کرتی ہیں جن سے اسرائیل نہ تو خوفزدہ ہے اور نہ ہی اُس کا نقصان ہوتا ہے۔ اسرائیل پر لازم ہے کہ بے گھر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرے۔ متنازعہ سرزمین پر نئی بستیوں کی تعمیر اور موجودہ بستیوں کو ہٹانے کے عمل کو فوری طور پر ختم کرے۔ اسرائیل جس منظم انداز میں نسل پرستی کو ہوا دے رہا ہے وہ صرف فلسطینیوں ہی کیلئے نہیں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ ہے اور اِس مرحلہئ فکر پر عالمی برادری کی طرف سے بھی اسرائیل پر دباؤ کی ضرورت ہے جنہوں نے فلسطینی عوام کی حالت زار پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنے فرض سے کنارہ کشی (دستبرداری) کر رکھی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے وقتاً فوقتاً اور عارضی جنگ بندی کے اعلانات کافی نہیں جب تک فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقے اور دیگر مقبوضہ اراضی پر تعمیرات کا جاری سلسلہ ختم نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ دراصل مسلم اُمہ کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں بصورت دیگر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم عرب اور مسلمان دنیا کے بارے میں درپردہ ویسے ہی عزائم رکھتے ہیں جیسا کہ زیرتسلط فلسطینیوں کے خلاف ہیں۔اس لئے عالم اسلام کو اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے اور یہ کام جلد از جلد ہو تو بہتر ہے۔