ہوا بہار کی ہے 

کھڑکیاں بجنے لگی ہیں۔ دروازے کھڑکنے لگے ہیں۔ابھی کچھ دن میں سرِ آسماں بادل بھی دل دہلا دینے والی لرزاہٹ کی آوازمیں گرجیں گے اور برسیں گے۔ کیونکہ نقارے پر چوٹ پڑ چکی ہے۔ پھر طبل بھی بجنے لگے ہیں۔کیونکہ دو ایک دن سے تیز ہوا چلنے لگی ہے۔فروری کا آخر ہو اور ہوا تیز نہ چلے ایسا تو ممکن نہیں۔کیونکہ یہی سب کچھ بہار کی آمد کی اطلاع ہے۔”کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں“۔اب کہنے لگے ہیں کھول دو کھڑکی دروازے اب سردی چلی گئی۔مگر شام پڑتے ہی سردی کا نزول از سرِ نو ہونے لگتا ہے۔دن کو اگر دھوپ ہو تو اس کی چھاؤں تلے بیٹھ تو جاتے ہیں۔ مگر مسلسل نہیں بیٹھا جاتا۔کیونکہ کچھ ہی دیر میں جسم و جاں میں سوئیاں سی چھبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔پھر چارپائی ہو یا کرسیاں ہوں کھینچ کر دھوپ کی تپش سے دور لے جانا پڑتی ہیں۔جنوری میں روشن دان پر لگائے گئے کاغذ کمروں کے اندر فروری کے اواخر میں دھپ دھپ بجنے لگے ہیں۔کیونکہ ہوا اندر آنا چاہتی ہے۔مگر اسے جب راہ نہیں ملتی تو دروازے کھڑکھڑاتی ہے او رکھڑکیاں بجاتی ہے۔ یہی ہوا اب کے زوروں پر ہے۔کچھ ہی دنوں میں آسمان کے بیچ گڈیوں کے اڑنے کے ہرسُو مناظر ہوں گے۔کیونکہ مارچ کا مہینہ دو ہاتھ پر ہے۔جب ہوا کا چلن بلکہ چال چلن اور چال ڈھال کچھ تیکھی سی ہوگی۔من چلے اور سیلانی طبیعت رکھنے والے اس بہار کے ابتدائی دنوں کی رعنائی لوٹنے کو خورد و نوش کے پروگرامات کریں گے۔ جانے یہ قافلہئ نوبہار کہا ں رکے گا۔یہی ہوا جو اب کھڑکی اور دروازے کو چھناکے سے بجا کر بھاگ جاتی ہے باہر سڑکوں پر خاک اڑا رہی ہے۔ا س کی بے قراری دیکھی نہیں جاتی۔ کچھ ہی دنوں میں جب درختوں پر پتوں کے بُور نظر آئیں گے اورکلیاں شاخوں پر جنم لینا شروع کردیں گی تو بادِ صبا ممتا کے جذبات لئے ان کلیوں کو گدگدائے گی ان کو شاخوں پر جھولے دے گی۔ ہوا کی سرگوشیاں ان کلیوں کیلئے لوریاں بن جائیں گی۔ پھر چہار دانگ عالم میں او دھے اودھے پیلے پیلے پیرہن پہن کر پھول اپنے جوبن کی بہار الگ سے دکھلاتے ہوں گے۔پھرکہیں سے فیض کی آواز باز گشت کے طور پر یاد کی گٹھری کھولے گی۔پھر دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے کسی کے پہلو کے سمن اور گلاب کھلتے ہوں گے۔”رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔موسمِ گل ہے تمھارے بام پر آنے کا نام“۔ایسے میں کتنے ہی اشعارکی آوازوں کے سائے لرزاں ہوں گے۔”کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی۔دھوم ہے پھر بہار آنے کی“۔ پھر ہمی کہتے ہوں گے ”گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے۔چلے بھی آؤ کہ گلش کا کاروبار چلے“۔ہواکے کھڑاک سے جہاں دل لرز ساجاتا ہے وہاں جب باہر نکل کر دیکھتے ہیں کہ دروازہ کس نے کھڑکھڑایا۔ اس وقت وہ شعر ذوقِ سماعت پر دستک دینے لگتا ہے ”انداز ہو بہو تیری آوازِ پا کا تھا۔ باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا“۔پھر اپنے ہی دل کے اندر کے نہاں خانوں سے محسوسات کی ایک جداگانہ لہر سی اٹھنے لگتی ہے ”را ت کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں۔اپناہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں“۔جب بہار کے آنے سے قبل ہی ایک حساس دل کا حال یہ ہو تو وہ آواز کانوں میں گونج کیوں نہ پیدا کرے گی”کیا گل کھلے گا دیکھئے ہے فصلِ گل تو دور۔ او رسُوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم“۔میں بہار کانام اگر راز میں بھی رکھوں او ر قلم کے گھوڑے کوتیز ہوا کے ذکر تک محدود جانوں تو جاننے والے جان جاتے کہ ”میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں۔ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے“ تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی۔پائے جنو ں سے حلقہ ئ گردشِ حال لے گئی“ مگر دوسری طرف یہ گونج بھی ہے کہ ”دستار سنبھالو کہ ہوا تیز ہے یارو۔عزت بھی یہاں پیڑ کے پتے کی طرح ہے“۔لیکن اب شاید سوشل میڈیا پر پگڑیاں اچھل جانے کے زمانے گئے۔ اب تو غلط بیانی ہو یا کسی کے پیچھے ناحق پڑجانے کی بات ہو۔ اگر ثابت ہو جائے تو پانچ سال قید کی سزا اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔جو کسی کے خلاف جھوٹ کا سا تیر کس کر کمان میں جڑ کے کسی کے دل کو آزار کی صورت ناحق اس میں ترازو کردیں۔بہار کی آمد کی اطلا ع کے ساتھ اس خبر کے سامنے آنے سے دل کو تراوت سی پہنچی ہے مگر کاش کہ ہم لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔ دل آزاری ظاہر میں ہو یا ٹی وی سکرین پر کبھی تعریف کے قابل نہیں ہوسکتی۔