ہنر مند بننے کے مو اقع 

خیبرپختونخوا کی حکومت نے نو جوا نوں کو ہنرمند بنانے کیلئے 5ارب روپے کے میگا پرا جیکٹ یعنی بڑے منصو بے کا اعلا ن کیا ہے اس منصوبے کے تحت حکومت صو بے کے ایک لا کھ جوا نوں کو اٹھارہ شعبوں کے اندر ہنر (Skills) میں تربیت دے کر سر ٹیفیکیٹ جا ری کر ے گی اس سرٹیفیکیٹ پر نو جوا نوں کو ملک کے اندر اور ملک سے با ہر با عزت روز گار ملے گا اس منصو بے میں نئے ضم شدہ اضلا ع کو ملا کر صوبے کے 34 اضلاع سے تعلق رکھنے والے نو جوا نوں کو فائدہ ہو گا 2017ء کی مر دم شما ری کی رو سے صوبے میں نو جوا نوں کی آبا دی کل آبا دی کا 65فیصد ہے یعنی بہت بڑی تعداد نو جوا نوں کی ہے جن شعبوں کے ہنر نو جوا نوں کو سکھا ئے جا ئینگے ان میں پلمبر‘ تر کھان‘ مستری‘ الیکٹریشن‘ مو ٹر مکینک‘ ڈرائیور‘باور چی‘سلا ئی کڑھا ئی بُنا ئی‘کمپیو ٹر پروفیشنل‘ ویلڈنگ‘زراعت‘ مویشی با نی‘ مرغبانی، باغبا نی وغیرہ شامل ہیں تر بیت حا صل کرنے والے نو جوا ن با عزت روز گار کما نے کے قابل ہو جائینگے ایک مشہور مقو لہ ہے اگر تم چا ہتے ہو کہ تمہارا دوست ہر روز مچھلی کھا ئے تو اس کو روزانہ مچھلی نہ بھیجو، تم اپنے دوست کو مچھلی پکڑ نے کا ہنر سکھا ؤ وہ روز مچھلی لا ئے گا اور رو ز مچھلی کھا ئے گا ہماری صو با ئی حکومت نو جوا نوں کے منہ میں لقمہ ڈا لنے کے بجا ئے نو جو ا نوں کو تر بیت دے کر اپنا لقمہ خو د پیدا کر نے کے قا بل بنا نا چا ہتی ہے ایک بار تر بیت پا کر ہنر مند افراد ما ر کیٹ میں آگئے تو وہ آسا نی سے ما ر کیٹ میں اپنا مقا م بنا سکتے ہیں اور وقت گذر نے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں ایک بڑی یو نیور سٹی میں وسائل کے استعما ل پر مذا کر ہ ہو رہا تھا پرو گرا م کے سہو لت کا ر نے شر کاء سے سوال کیا، پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ کیا ہے؟ شر کا ء نے جو رد عمل دیا وہ متنوع اور مختلف تھا کسی نے کہا معدنیات‘ کسی نے کہا انا ج کسی نے کہا پھل، کسی نے کہا بندر گاہ، کسی نے کہا پا نی، کسی نے جنگلا ت کسی نے کہا صحرا، کسی نے کہا پہاڑ الغرض جتنے منہ اتنی با تیں شر کا کی آراء کو یکجا کر نے کے بعد سہو لت کار نے وائٹ بورڈ پر لکھا ”انسا نی وسیلہ“ اس کی وضاحت کر تے ہوئے سہو لت کا ر نے کہا پا کستا ن کی آبا دی 22کروڑ سے تجا وز کر چکی ہے اس آبادی میں 65فیصد نو جو ان شا مل ہیں جنکی مجموعی تعداد چودہ کروڑ سے اوپر ہے آبا دی کا یہ حصہ پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ ہے فیلڈ مارشل ایوب خا ن اور غلا م فاروق خا ن نے 1960ء کی دہا ئی میں ہا ئی سکولوں کے اندر فنی تعلیم کے ور کشاپ رکھنے کا منصو بہ تیا ر کیا تھا‘ 1970کی دہائی میں ور کشاپ بن گئے زراعت کے ورکشاپ تھے‘ الیکٹر یشن کے ور کشاپ تھے‘ ترکھان اور پلمبر کے ورکشاپ تھے اساتذہ کو تربیت دینے کا مر بوط نظا م تھا ور کشا پ بننے کے بعد اساتذہ تر بیت پا کر آگئے اور ہا ئی سکو لوں میں اس منصو بے پر عمل شروع ہوا ایک ضلع میں ایک سالا نہ امتحا ن میں اگر 65ہزار طلباء میٹرک پا س کر تے تھے وہ سب کے سب ہنر مند بھی ہو کر نکلتے تھے ان کے پا س ہنر بھی ہو تا تھا ہنر کا سرٹیفیکیٹ بھی ہو تا تھا شکر کا مقام ہے کہ مو جو دہ حکومت نے نو جوا نوں کو فنی تربیت دینے کا پروگرام بنا یا ہے اگر چند سا لوں تک اس پر عمل ہوتا رہا تو آنے والے وقتوں میں پا کستان خطے میں افراد ی قوت کا اہم برآمد کنندہ بنے گا۔