سیاسی تلخیاں: زمینی حقائق

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہر دن تلخ ہو رہا ہے جبکہ مخالفت اور حمایت کا کوئی بھی پہلو نظریاتی نہیں اور ہر جماعت اپنے اپنے مفاد کی عینک لگائے ایک ایسا ماحول بنانے میں پیش پیش ہے جس سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہو! حزب اختلاف نے خود کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے جہاں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش میں یہ اپنے سارے وسائل اور پوری قوت اکٹھا کر رہی ہے کیونکہ اُنہیں اِس بات کا یقین ہے کہ اگر فی الوقت ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست دینا ممکن نہیں ہوگا اِس لئے جو بھی کرنا ہے انتخابات سے قبل ہی کرنا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف عام انتخابات سے ایک سال قبل (اپنی آئینی مدت کے آخری چند ماہ) عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کا ارادہ رکھتی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں جانتی ہیں کہ قوم کی کمزور یاداشت کی وجہ سے ایسا ہونے کی صورت میں اُن کے لئے حسب خواہش انتخابی کامیابیاں سمیٹنا ممکن نہیں رہے گا۔ حزب اختلاف کی جاری دور دھوپ میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ہمیشہ کی طرح پراعتماد دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کسی حد تک طنزیہ انداز میں اپوزیشن سے نہ گھبرانے کا کہا ہے اور دوسری طرف یہ پیشرفت بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ پہلی مرتبہ شہباز شریف نے جہانگیر ترین سے ملاقات کی ہے اور ملاقات میں یقینا سیاسی معاملات پر بھی بات چیت ہوئی ہوگی جس کی مصدقہ تفصیلات نہ تو جاری کی گئیں اور نہ ہی اِس بارے میں قیاس آرائیوں کی تردید و تصدیق کی جا رہی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف اور جہانگیر ترین میں ملاقات ہوئی ہے اور اِس ملاقات کی تردید نہیں کی گئی جو اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک نازک وقت اور نازک مرحلے پر ہوئی ہے جبکہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے کے عزائم کا اظہار کئے بیٹھی ہے اور اب اپنے اِس اعلان سے پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی۔ دوسری اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ حزب اختلاف کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ شہباز ترین ملاقات کے صرف دو دن بعد آصف علی زرداری نے گزشتہ سال پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم چھوڑنے کے بعد پہلی بار مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی‘ حزب اختلاف قوم کو یہ باور کروا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے متعدد اراکین بھی حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے‘ تو کیا اِس تصور کو مستعار لیا جا سکتا ہے!؟ جبکہ اب تک قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جس قدر بھی ووٹنگ کے مراحل ہوئے ہیں اُن میں حزب اختلاف کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور بالخصوص سینیٹ (ایوان بالا میں تو) حزب اختلاف کی اکثریت ہے لیکن وہ اِس اکثریت کے باوجود اقلیت بنی ہوئی ہے! قومی سطح پر کسی بھی قسم کی تبدیلی کیلئے یہ مناسب وقت نہیں۔  سیاسی جماعتوں کے آپسی اختلافات  میں بہت سے اہم امور نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ مہنگائی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں کچھ کمی ضرور ہوئی ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہو گا کہ حزب اختلاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ عوام کی اکثریت چاہتی ہے پاکستان میں سخت گیر مالی و انتظامی نظم و ضبط لاگو کیا جائے۔ تحریک انصاف کیلئے آئندہ عام انتخابات میں معاشی کارکردگی   کے اہداف کے حصول کو ممکن بناناہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کیا کچھ موجود ہے؟اس وقت یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت کی کیفیت ہے اور عوام کے پاس جانے کے قبل ان کے سامنے ایسا پروگرام رکھنے اور ان کے دل جیتنے میں مگن ہیں کہ آنے والے الیکشن میں عوامی تائید حاصل کر سکیں۔