اب توشب کی تاریکی میں وارداتوں کے زمانے گئے۔ سرِ عام اور دن کی روشنی میں لوٹنے والے لوٹتے ہیں۔ آنکھوں سے سرمہ نکال لیتے ہیں اور جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھس جاتے ہیں۔ پشاور میں تو کسی حد تک معاملات قابو میں ہیں تاہم یہ سلسلہ کراچی میں اپنے عروج پر ہے۔پشاور کے خاص خاص علاقوں میں جہاں عوامی شکایات موجود ہیں وہاں ناکہ بندیاں کرکے ہر آنے جانے والے مشکوک موٹر سائیکل سوار کو گاڑی سے اُتار کر اس کی تلاشی لی جاتی ہے۔تاہم اس کے باوجود اکا دکا واقعات یہاں بھی ہورہے ہیں۔ وہ عینک پسند کرنے کی غرض سے دکاندار سے آئینہ سے لے کر عینک پہنے اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کی دائیں جیب پر کسی کا ہاتھ پڑا۔مگر وارداتیا اس کوشش میں ناکام ہوا۔وہ جیب سے موبائل اُچک نہ سکا اوربھاگ نکلا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے اور عینک کیلئے رُکے تھے۔ ہم نے بھی سب دیکھا کئے۔اس نوجوان شہری کی جیب پر جب جھپٹا پڑا تو اس نے بائیک کو موڑ کو اس واردات کی کوشش کرنے والے کا پیچھا کیا۔ مگر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔جیسا کہ یہاں اکثرہوتا ہے۔یہ ایک واقعہ تو نہیں۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات روزانہ ہو رہے ہیں۔ جو کچھ تو تھانے میں رپورٹ ہوتے ہیں۔دوسری طرف زیادہ ترموبائل سے محروم ہوجانے والے خاموشی سے گھر چلے جاتے ہیں۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ چیز تو ہاتھ سے گئی۔اب دوبارہ ملنے والی نہیں۔سو چیخنے چلانے اور تھانے جانے سے کیا اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔اب پولیس بھی کیا کرے۔ اتنی نفری کہاں ہے جو صرف اس کام کیلئے پورے شہر میں جھونک دی جائے۔اگر ساری پولیس فورس کو بھی اس کام کیلئے مخصوص کر دیا جائے تو بھی یہ ناسور ختم ہونے والا نہیں۔پشاور میں تو ابابیل فورس خاص طور پر سٹریٹ کرائمز کے تدارک کیلئے ہی بنائی گئی ہے اور اس کے اہلکار شہر اور مضافات میں گشت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، تاہم وہ بیک وقت ایک جگہ پر ہی ہوسکتے ہیں، وارداتیے تو موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔اس قسم کی وارداتوں میں زیادہ تر موبائل چھینے جاتے ہیں۔کیونکہ اگر ایک موبائل کسی چور نے حاصل کرلیا تو یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے۔اس میں واردات کرنے والے کو فروخت کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔اس کے مخصوص دکاندار واقف کار ہوتے ہیں۔جو موبائل لے کر اسی وقت بہت کم رقم دے کر ان چور وں کا کام نپٹا دیتے ہیں۔کسی سے موٹر سائیکل چھینا جا رہا ہے اور کسی سے نقدی اڑا لے جاتے ہیں۔ پولیس کی ناکہ بندیاں تو خیر کیا ہوں گی۔ خبروں میں بتلارہے تھے کہ کراچی کے علاقے کورنگی میں چوروں نے اپنی ناکہ بندی کر رکھی تھی اور وہاں کافی لوگوں سے بہت آرام کے ساتھ نقدی چھینی اور موبائل ہتھیالئے۔ مگر جو راہ چلتے لوگ تھے وہ اپناچلتے گئے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ ہو کیا رہا ہے۔وہ دل میں کہتے ہیں میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ بھلا اس پر کیا آفت پڑی ہے کہ جو چور کے ہاتھ کو روکے اور نیم تاریک راہوں میں ماردیا جائے۔ اس کو سانپ کی بانبی میں ہاتھ دینے کی ضرورت ہی کیاہے۔آبیل مجھے مار والاکام کیوں کرے۔کیوں نہ آرام سے گھر چلا جائے۔اگر دوسرے کے ساتھ ہوا تو کیا ہوا۔ جب خود اس کے ساتھ ہو تو پھردیکھاجائے گا۔میں سلامت رہ گیا بس یہ کافی ہے۔مگر اس کومعلوم نہیں کہ یہ توحجام کا استرا ہے۔آج کسی اور کے چہرے پر کل میرے چہرے پر۔پھر کراچی ہی کو لیں وہاں اکاون دنوں میں گیارہ ہزار وارداتیں ہوئی ہیں۔ یہ ہزاروں وارداتیں وہ ہیں جن کا ریکارڈ رپٹ درج کرنے والوں کی وجہ سے پولیس سٹیشن میں پڑا ہوا ہے۔یہ لوگ کہاں سوئے ہیں۔ سرکاری لوگوں کی اپنی مجبوریاں تو ہیں کہ اس ناسور کوکنٹرول کرنا ان کے بس میں نہیں۔مگر کچھ توہوگا جو ان کے بس میں ہوگا۔کیونکہ سرکار جو بھی ہو اس کے پاس عوام کے ووٹوں کی دی ہوئی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔جس سے کام لے کر اور ایک حکمت عملی کے تحت ہر برائی کاسدباب کیا جا سکتا ہے۔آخر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تواپنا نظام ہے جہاں اس قسم کی ہنگامہ خیزی نہیں۔ جو ہمارے ہاں ہر شکل میں موجود ہے۔شاید وہاں جمہوریت بہت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔