پیوٹن کا روس

روس کے موجودہ صدر پیوٹن کے حوالے سے کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس نے مغرب اور امریکہ کو ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یوکرین پر حملہ جیسا بھی اقدام ہے مگر اس میں شک نہیں امریکہ اور مغرب نے اس کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیا اور اگر یہ ان کی سازش ہے تو وہ اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ صدر پیوٹن نے روس کو جس طرح تیزی سے مستحکم کیا اور اس کی مالی حالت قابل رشک بنا دی تو یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ہضم نہیں ہورہا تھا اسلئے تو انہوں نے یوکرین کی صورت میں روس کیلئے ایک ایسا مسئلہ کھڑا کیا کہ جس سے نمٹنا روس کیلئے کسی بھی صورت آسان نہیں ہو۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتا اور یوکرین کو نیٹو کا رکن بننے دیتا ہے تو یہ دشمن کا دروازے پر آنے والی بات ہے اور اگر وہ یوکرین پر حملہ کرتا ہے جیسا کہ اس نے کیا تو پھر اس کے معاشی اثرات ایک بار پھر روس کو کمزور کرنے کا باعث ہوں گے اور یہ امریکہ اور نیٹو ممالک چاہتے ہیں۔ امریکہ نے 2004میں یوکرین میں مغر ب نواز حکومت قائم کرنے کیلئے تحریک شروع کی اور بالاخر اس میں کامیاب ہوا۔ روس نواز حکومت کی بجائے مغرب نواز حکومت قائم ہونے کے بعد یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے کیلئے پس پردہ کوششیں شروع کیں اور یہ اب بھی جاری ہیں تاہم اب روس میں پیوٹن جیسا حکمران بیٹھا ہے جو امریکہ کی ایک بھی نہیں چلنے دے رہا اور اس نے یوکرین کو مغرب کی جھولی میں گرنے سے روکنے کیلئے اب عملی طور پر جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسے میں نقصان سراسر یوکرین کا ہے جس نے امریکہ کی شہہ پر روس کے ساتھ دشمنی شروع کی اور اب جب روس نے جنگ شروع کر دی ہے امریکہ اس کو صرف زبانی کلامی حمایت اور روس پرپابندیوں کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کریگا، امریکہ کبھی بھی روس کے مقابلے میں اپنی فوج کو نہیں لائے گا۔ اور جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ کے صدر نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران یہی کہا کہ وہ روس کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے اور نیٹو ممالک کی حفاظت کیلئے اقداما ت کریں گے۔ اور یہ تو واضح حقیقت ہے کہ یوکرین ابھی نیٹو کا رکن نہیں بنا ہے۔روس یوکرین کو دبا کر ایک طرح سے امریکہ اور نیٹو کو یہ اشارہ دے رہاہے کہ وہ اپنی دہلیز پر امریکہ اور نیٹو کے ہاتھوں میں کھیلنے والی حکومت برداشت نہیں کریگا۔اس طرح دیکھا جائے تویہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نکتیا خروشیف کے سیاسی منظر نامے سے چلے جانے کے بعد ایک لمبے تک سابقہ سوویت یونین میں جو رہنما بر سر اقتدار رہے وہ صلح جو بھی تھے اور قدرے نرم طبیعت کے مالک بھی اور ان کے نرم سیاسی رویوں کی وجہ سے ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا پیوٹن کی شکل میں جس دن سے ماسکو میں جو شخص برسراقتدا رہے وہ ایک سخت گیر قسم کا قوم پرست ہے اورلگ یہ رہا ہے کہ وہ وسطی ایشیا کی ان ان ریاستوں کو دوبارہ سویت یونین کے جھنڈے کے نیچے ایک دن جمع کر کے رہے گا جن کو چند سال قبل امریکہ نے ایک سازش کے تحت سوویت یونین سے توڑا تھا۔ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی صدی شاید روس اور چین کی ہی ہو چنانچہ عمران نے روس اور چین کے ساتھ یک جان دو قالب ہونے کی جو سیاسی حکمت عملی بنائی ہے وہ دانشمندانہ ہے اور اس ملک کے عوام کے جذبات کے عین مطابق۔کسی بھی معاملے میں اب امریکہ پر مزید اعتبار کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ ا ب کچھ تذکرہ وطن عزیز کے حالات کا ہوجائے شنید ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے کافی ہوم ورک کیا ہے اس دوران اگر اپوزیشن والوں کوکامیابی ہو جاتی ہے اور وہ حکومت بناتے ہیں تو وہ بھی ان مسائل کا حل نہیں نکال سکتے ا سلئے تو بہت سے حلقوں کی منشاء یہ ہے کہ موجودہ حکمران آئین کے مطابق اقتدار میں اپنی مدت پوری کریں زیادہ وقت تو وہ گزار چکے۔ عام طور پر جو پانچواں سال ہوتا ہے وہ الیکشن کا سال ہوتا ہے اس حساب سے اب حکومت وقت کے پاس بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور اگر اس میں وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو یقینا عوام رائے دیتے وقت اس کو مد نظر رکھیں گے۔