آخر وہی ہوگیا جس کا ڈر تھا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے مشرقی یوکرین کے ڈونباس خطے میں فوجی آپریشن کا اعلان کے بعد روس نے یوکرین کی فوجی تنصیبات اور فضائیہ پر میزائل حملے شروع کردیئے ہیں اور یوکرین کے جنوبی ساحل پر فوجیں اتارنا شروع کردی ہیں۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے یوکرین میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے روس نے ہماری سرحدی چوکیوں اور فوجی تنصیبات پر حملے شروع کر دئیے ہیں جبکہ یوکرین کے متعدد شہروں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔یوکرین کے وزیرِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ان کے بقول روس کے بلا اشتعال اور بلا جواز حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے دنیا روس کو جوابدہ ٹھہرائے گی۔ بائیڈن سے بات کرتے ہوئے یوکرین کے صدر نے دنیا کے رہنماؤں سے روسی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنے اور یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے کہا ہے۔ بائیڈن کے مطابق امریکہ اور اتحادی ممالک روس پر سخت پابندیاں عائد کریں گے۔صدر پیوتن گزشتہ کئی ماہ سے یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی بارے مغرب کے دعوں کی تردید کرتے رہے لیکن 21 فروری کو انھوں نے ان علاقوں میں روسی فوج داخل کردی اور آج حملے شروع کردئیے ہیں۔ روس نے یہ اقدام اس وقت اٹھایا ہے جب یوکرین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کا اجلاس جاری تھا۔ صدر پیوتن نے اپنے خطاب میں کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی روس کے معاملات میں مداخلت کرے گا یا ہمیں دھمکائے گا تو ہمارا ردعمل فوری ہوگا۔ ہم آپ کو ایسے نتائج کی طرف لے جائیں گے جو تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے گئے ہوں گے'. انہوں نے مشرقی یوکرین میں فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے اور اپنے گھروں کو لوٹ جانے کا کہا ہے۔1994 میں روس نے یوکرین کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور روس کے حالیہ اقدام کو اس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔اس سے پہلے روس کی جانب سے مشرقی یوکرائن کے دو علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے اور وہاں فوج بھیجنے کے بعد امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، جرمنی، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے روس پر پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا تھا۔ روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو روس ان دونوں ریاستوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلے گا۔امریکی صدر بائیڈن کے مطابق روسی اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور یوکرائن پر روسی حملے کا آغاز ہے۔اگرچہ ہمارا روس کے ساتھ جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہم نے اپنے اگلے قدم کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔اگر روس نے یوکرین کے خلاف مزید اقدامات کیے تو اس کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب بھی سفارت کاری سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ بائیڈن کے بقول امریکہ نے روس کے دو مالیاتی اداروں پر مکمل پابندی اور روس کو قرضوں کے اجرا پر جامع پابندی لگا دی ہے اور ان پابندیوں کے تحت ہم نے روس کو مغرب کے مالیاتی اداروں سے منقطع کر دیا ہے اور وہ اب مغرب سے رقوم حاصل کر سکے گا نہ یورپی مارکیٹوں سے نئے قرضے حاصل کرسکے گا اور نہ تجارت کر سکے گا۔ مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں نئی سرمایہ کاری، تجارت اور امریکی شہریوں کی جانب سے مالی معاونت نہیں کی جائے گی۔ادھر یورپی یونین میں شامل ممالک نے بھی متفقہ طور پر روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ان پابندیوں کے تحت روس کے 351 اراکین پارلیمان اور27دیگر افراد و اداروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں مگر صدر پوٹن کا نام ان میں شامل نہیں ہے۔ ادھر جرمنی نے روس کے ساتھ نارتھ سٹریم ٹو نامی گیس پائپ لائن پر کام روک دیا تھا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ یوکرین کی مزید دفاعی امداد کرے گا جبکہ نیٹو اتحاد کے ممالک میں امریکی دستے بھیجے جائیں گے۔مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ چونکہ یوکرین کی سرحد کے قریب روس کے ڈیڑھ لاکھ فوجی موجود ہیں تو اس اقدام کے بعد روسی افواج کا یوکرین کے مشرقی علاقوں میں داخل ہونا آسان ہوجائے گا۔ واضح رہے 2014 میں روس نے اپنی سرحد سے متصل یوکرین پر حملہ کرکے اس کے جنوبی حصہ کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے یوکرین کے دو خطوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں روس کے حامی جنگجو یوکرینی افواج سے برسرجنگ ہیں۔صدر پیوتن نے پچھلے دنوں اپنے خطاب میں یوکرین کو روس کی تاریخ کا ایک لازمی حصہ اور مشرقی یوکرین کو قدیم روسی سرزمین قرار دیا اور کہا کہ۔یوکرائن صرف ایک ہمسایہ ملک ہی نہیں ہے۔ وہ ہماری تاریخ و ثقافت اور ہمارے فکری اور روحانی تسلسل کا ناقابل تنسیخ حصہ بھی ہے۔ انہوں نے روسی فوج مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول خطوں میں بھیجتے ہوئے کہا کہ ان دستوں کا مقصد امن قائم رکھنا اور اسے یوکرین سے محفوظ رکھنا ہے تاہم امریکہ اور یورپی یونین نے اس موقف کو مسترد کیا تھا۔روس اور مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پابندیوں کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ یاد رہے دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کا دسواں حصہ روس سے آتا ہے۔صدر پیوٹن نے اکیس فروری کو اپنی تقریر میں یورپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ چاہتے ہی نہیں کہ ہم آپ کے دوست بنیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہم دشمن بن جائیں؟پیوٹن کی تقریر سے نظر آیا کہ انہیں نیٹو کی توسیع اور یوکرین کی نیٹو رکنیت بالکل قبول نہیں۔ انہیں خدشہ ہے اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہوتا ہے تو یہ اتحاد کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے‘ یوکرین کی چار مشرقی یورپی ممالک ہنگری، پولینڈ، سلویکیا اور رومانیہ کے ساتھ بائیس سو کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے۔ روس یوکرین کی نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے۔