روس: معاشی روابط

پاکستان میں تعینات روس کے سفیر ڈانیلاوی گینج کا کہنا ہے کہ ”وزیراعظم عمران خان کے دورہئ روس کے دوران دونوں ممالک کے معاشی روابط بھی زیرغور آئیں گے۔ روس پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کو ترجیح میں پہلے درجے پر رکھتا ہے کیونکہ یہ توانائی کا انتہائی اہم منصوبہ ہے۔“ وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس انتہائی اہم ہے اور اِس سے پاکستان کو اپنی آزادی و خودمختاری‘ دفاع‘ علاقائی امن و امان‘ ملکی استحکام اور قومی ترقی سے متعلق جو چیلنجز درپیش ہیں‘ اُن کے حوالے سے روس کی حمایت و تعاون درکار ہے۔ ذہن نشین رہے کہ وزیراعظم کو اس دورے کی دعوت روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے خود دی تھی جسے روس کے ساتھ سرد مہری کے گزرے ہوئے دور کے مقابل ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ قرار دیا جا سکتا ہے اور امکان یہ بھی ہے کہ وزیراعظم کا دورہئ ماسکو روس یوکرین کشیدگی کم کرانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ ماضی میں امریکہ کی جانب زیادہ جھکاؤ ہونے کے باعث سوویت یونین کی جانب سے ہمارے ساتھ سرد مہری والا رویہ اختیار کیا گیا اور جب ستر کی دہائی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جاری سرد جنگ میں پاکستان نے اپنا سارا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالا اور امریکی سرپرستی میں سوویت یونین کے ساتھ گوریلا جنگ میں مصروف افغان مجاہدین کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی تو ماسکو اور اسلام آباد میں فاصلے مزید بڑھ گئے جبکہ اس جنگ میں ہمارا دشمن بھارت روس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کر رہا تھا اور سامراج مردہ باد کے نعرے لگواتا تھا تاہم امریکی نائن الیون کے بعد بھارت کا یہ کردار یکسر تبدیل ہوگیا جس نے سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ سے مخاصمت والی پالیسی تبدیل کرلی ہوئی تھی۔ نائن الیون کے ردعمل میں امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اپنے نیٹو اتحادیوں کے ذریعے افغان دھرتی پر اپنے مفادات کی جنگ کا آغاز کیا تو اس نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس لوٹانے کی دھمکی دے کر اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا جبکہ بھارت بھی امریکہ ہی کے کیمپ میں آگیا۔ امریکہ نے اپنے ان دونوں اتحادیوں کے مابین جاری مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے بھارت کی پیٹھ ٹھونکنا شروع کر دی جس نے امریکی شہ پر ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کو مزید پروان چڑھایا اور افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے استعمال کیا۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی بنیاد پر اصولی طور پر پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرکے چین‘ روس‘ ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ روابط مستحکم کرنا چاہئیں تھے جو پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے کو لاحق خطرات کے توڑ کے لئے ضروری تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ امریکہ کی جانب ہی رہا جس کے باعث ہمیں جانی اور مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے اور امریکہ کے ڈومور کے تقاضوں نے بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ خوش آئند صورتحال ہے کہ تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قومی خارجہ پالیسی کو درست سمت کی جانب گامزن کرنے کے اقدامات اٹھائے اور امریکہ کی بجائے چین اور روس کے ساتھ تعلقات مستحکم بنانے کی حکمت عملی طے کی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ دشمنی مول لینے پر آگئے ہیں تاہم خطے کی امن و سلامتی اور علاقائی خوشحالی اس امر کی ہی متقاضی ہے کہ پاکستان چین اور روس سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کار میں مضبوطی آئے۔ تحریک انصاف بلاشبہ اسی پالیسی پر گامزن ہے جس کے باعث روس کے ساتھ جاری سردمہری کا خاتمہ ہوا ہے اور اب دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار اقتصادی مراسم کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ وزیراعظم کے دورہئ ماسکو سے خطے کے ایک ”مضبوط بلاک“ کی راہ ہموار ہو گی‘ چین کے ساتھ ہم پہلے ہی گہری‘ مضبوط اور بے بدل دوستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جس کے ثمرات ہمیں چین پاکستان اقتصادی (سی پیک) راہداری کی صورت میں حاصل ہوئے ہیں جبکہ چین مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستان کے موقف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے تو اِس سے جس قدر زیادہ فائدہ اُٹھانا ممکن ہے اُتنا فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔ اگر روس سے قربت بڑھی تو گزشتہ دو دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران سے عہدہ برآء ہونے میں بھی مدد ملے گی اور چین کی طرح روس بھی مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کے ساتھ کھڑا ہوگا جس سے کشمیر مسئلہ یواین قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے حل کے امکانات بھی قوی ہو جائیں گے۔