آٹو گراف 

ہر نیا زمانہ اپنے تقاضے ساتھ لاتا ہے‘پچھلے راستے مٹ جاتے ہیں۔نئی پگڈنڈیوں سے چمن آراستہ ہونے لگتا ہے۔آج کل سیلفی کا زمانہ ہے۔آپ جس شخصیت کے فین ہیں اس کے ساتھ اگرکہیں سیلفی لے لیں توبہت بڑی بات ہے۔ پہلے زمانے میں آٹو گراف ہوا کرتا تھا۔مجید امجد کی ایک نظم ہے۔جس کا نام ہے آٹوگراف۔ کم از کم پچاس سال پہلے کی لکھی ہوئی۔ پہلے کسی مشہور شخصیت سے خواہ جس شعبہ میں نامور ہو اس کے چاہنے والے اس کے خودنوشت دستخط لے لیا کرتے تھے۔رش میں اس چاہنے والے کے لبوں سے آٹو گراف پلیز کی آواز ابھرتی۔پھر وہ ملک کی مشہور ہستی ہویا دنیا بھر میں مقبول ہو اس کے دستخط کے لئے پین آگے بڑھ جاتا۔ وہ کھلاڑی اس پرجلدی میں اپنا دستخط ثبت کر دیتا۔اب وہ اپنا پورا دستخط کرتا یا یونہی لکیر کھینچ دیتا یہ اُس کی مرضی تھی۔ مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ کسی آٹوگراف بک میں کچھ بھی لکھے۔ آٹو گراف لیتے وقت فرمائش کی جاتی تو آں جناب آپ کے لئے دعائیہ جملہ بھی لکھ دیتے۔ اگر وہ شاعر ہوتا تو بفرمائش کسی کی کتاب کے پہلے صفحے پردستخط کر دیتا۔پھر یہ کتاب خود اس کی اپنی تصنیف بھی ہو سکتی ہے۔پھر آٹو گراف بک ہو یا کوئی پیج ہو یا اگر نہ ہو تو کھلاڑی حسبِ درخواست اپنے فین کی ہتھیلی پر بھی دستخط کردیتا۔یہ موقع موقع کی بات ہوتی ہے۔کبھی کسی گیم کا کوئی نام چین کھلاڑی اتنے رش میں گھرا ہوتا ہے کہ اگر اس کے آگے نوٹ بک کریں تو وہ اس پرایک لکیر سی کھینچ دے تو یہ بھی بڑی بات ہے۔پچھلی نسل کے بہت سے لوگوں کے پاس اپنی اپنی آٹو گراف بک پڑی ہے۔جس میں ان کے زمانے کی نامور شخصیات کے دستخط موجود ہیں۔یہ ساری شوق کی باتیں ہیں۔ایسے بھی ہیں جن کو آٹو گراف سے کچھ لینا دینا نہیں۔حالانکہ وہ ان مشہور ہستیوں کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔پھر ایسے بھی ہیں کہ جن کو خود اس کھیل سے سروکار نہیں۔پھر ایسے موقع پر کسی معروف کھلاڑی سے کیا واسطہ۔میرے پاس آٹو گراف بک ہوا کرتی تھی۔ جس کو میں بہ ہزارشوق خرید کرلایاتھا۔جس میں رنگین موٹے صفحے تھے۔آج کے پچاس کے نوٹ کے سائز کی پیج والی بک تھی۔ اس میں آٹو گراف بھی لیناہوں گے۔ اس میں کسی کے دستخط ہونے چاہئیں۔ پھر وہ نوٹ بک بھر گئی۔ اس میں مشہورشخصیات کے دستخط تھے۔پہلے پیج پر اپنے والد کے آٹوگراف لئے تھے۔ انھوں نے اس میں نہ صرف آٹوگراف دیا بلکہ ساتھ نصیحتیں بھی لکھ دیں۔ پھر اس بک میں اس وقت کے عظیم کھلاڑیوں کے دستخط تھے۔ وہ زمانہ بہت پر امن زمانہ تھا۔کوئی رہزنی کہیں بھولے سے ہو جاتی۔ جہاں جاتے راستے کھلے ہوتے جس جگہ چاہتے جا کر سما جاتے۔ جہاں کہیں کوئی میچ ہوتا وہاں عارضی سا ٹکٹ ہوتا۔ سروسز گراؤنڈ پر جو اے جی آفس کے سامنے واقع ہے پاکستان اورانڈیا کے کرکٹ میچ ہوتے۔پشاور یونیورسٹی کیمپس کے چمن زاروں میں اور پولیس لائنز کے ہاکی گراؤنڈ میں عالمی ٹیموں کے مقابلے ہوتے۔پولیس لائنز کے اندر جا کرنیچے گراؤنڈ میں بغیر ٹکٹ بیٹھ جاتے۔میچ دیکھا اور کھلاڑیوں سے آٹو گراف لئے اور گھر کو واپس لوٹ آتے۔ کوئی رش نہ ہوتا اور نہ کوئی راستے کی رکاوٹ ہوتی۔پھر نہ توکہیں استقبالیہ پر شناختی کارڈ جمع کروانا پڑتا اور نہ کوئی دربان راہ میں حائل ہوتا۔اس آٹو گراف بک میں پاکستانی ہاکی ٹیم کے بہت سے کھلاڑیوں کے آٹو گراف تھے جن کو تنہائی میں بیٹھ کر دیکھتے خوش ہوتے اور دوستوں کو دکھاتے۔لفٹ آؤٹ سمیع اللہ اوررائٹ آؤٹ کلیم اللہ کیپٹن اصلاح الدین اور جانے کس کس کے دستخط ثبت تھے۔ٹی وی ڈراموں کے پسندیدہ اداکاروں کے آٹو گراف بھی موجود تھے۔ ہائے کیا زمانہ تھا کیا لوگ تھے کیا کہتے تھے۔ اب تو سیلفی نے سب کچھ تاراج کر دیا ہے۔اب آٹو گراف کے بجائے سیلفی زیادہ کارگرہے۔اب تو وقت کے بدلنے کے ساتھ ہماری اس نوٹ بک کا بھی نام پشہ نہیں۔جانے کہا ں گئی۔مگر اب تو سیلفی ایسی چیز ہے کہ واقعی کسی دوست کو یقین دلایا جا سکتاہے کہ میں اس مشہور شخصیت کے ساتھ مل کر آیا ہوں کیونکہ یہ تصویراس کا ثبوت ہے۔بقول ِ غالب”وہ فراق اور وہ وصال کہاں۔ وہ شب و روز ماہ وسال کہاں۔ تھی جو اک شخص کے تصور سے۔ اب وہ رعنائی خیال کہاں“۔