معیشت‘ چادر اور پاؤں 

وزارت اقتصادی امور نے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم گزشتہ ساڑھے تین سال میں مسلسل بڑھ رہا ہے جو مالی سال دوہزاراُنیس میں دس ارب اُنسٹھ کروڑ ڈالر سے مالی سال دوہزاربیس میں دس ارب چھیاسٹھ کروڑ بیس لاکھ ڈالر تک پہنچا اور پھر مالی سال دوہزاراکیس میں چودہ ارب اٹھائیس کروڑ ڈالر ہوا جبکہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں یہ قرض بارہ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ چیلنجز اور زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ نبردآزما موجودہ حکومت نے رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے پہلے سات ماہ میں بارہ ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرض لیا‘ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں حاصل کئے گئے غیر ملکی قرضوں سے قریب اکیاسی فیصد زیادہ ہے۔ وزارت ِاقتصادی اَمور کی ماہانہ رپورٹ میں جہاں دیگر اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں وہیں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ رواں مالی سال کے لئے مقررہ غیر ملکی امداد کا قریب چھیاسی فیصد حصہ بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔ اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ”نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘‘کی مد میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالر سے زائد کا غیر ملکی قرض شامل نہیں‘ جس سے متعلق معلومات ’ایم ای اے‘ کی رپورٹ میں نہیں دی گئی۔ اس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے حاصل کردہ قریب ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم بھی شامل نہیں ہے جو رواں ماہ کے اوائل میں جاری کی گئی۔ اِن اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے کو پورا کرنے اور زیادہ درآمدات اور پچھلے قرضوں کی مالی اعانت کے لئے درکار زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے میں غیر ملکی قرضوں پر نسبتاً زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ وفاقی بجٹ دوہزاراکیس بائیس میں غیر ملکی قرضوں کے لئے سالانہ بجٹ کا ہدف چودہ ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا اور پہلے سات ماہ میں بارہ ارب ڈالر کا قرضہ لیا جا چکا ہے۔ مالی سال دوہزاراکیس میں کل چودہ ارب تیس کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت کے 43ماہ کے دوران بیرونی ذرائع (پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کے علاوہ) مجموعی غیر ملکی قرضہ 47ارب 55کروڑ ڈالر ہو چکا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک برآمدات کے مقابلے درآمدات زیادہ رہیں گی اُس وقت تک قرض لینا پڑیں گے اور چاہے حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو معیشت کے پہیے کو چلانے کے لئے قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اِس لمحہئ فکریہ پر اِس بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ اگر پاکستان کی برآمدات مختلف وجوہات کی بنا ء پر نہیں بڑھ رہیں تو کم سے کم درآمدات میں تو کمی لائی جائے۔ غیرملکی گاڑیوں اور سامان تعیش کی درآمد کے علاوہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان زرعی اجناس درآمد کر رہا ہے! ذہن نشین رہے کہ پاکستان کا ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جنوری دوہزاربائیس میں دو ارب پچپن کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں اکیس کروڑ نوے لاکھ ڈالر تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی اہم وجہ درآمدات میں اضافے کے ساتھ بڑھتی درآمدی قیمتیں ہیں۔ دسمبر دوہزاراکیس یہ خسارہ ایک ارب نو کروڑ تھا تاہم تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے ساتھ بڑھتی ہوئی درآمدات نے جاری اخراجات کے خسارے کو دوہزاراٹھارہ میں بیس ارب ڈالر کی اب تک کی بلند ترین سطح سے نیچے لانے کی جدوجہد کو تقریباً ناکام کر دیا ہے۔ اعداد و شمار سے عیاں ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات اہم عنصر ہے جس نے درآمدی بل میں اضافہ کیا لیکن سروسز درآمدات بھی گزشتہ سال کی اسی مدت میں چار ارب چار کروڑ چھبیس لاکھ ڈالر کے مقابلے میں اُنتالیس فیصد اضافے سے چھ ارب ایک کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ معاشی بہتری اور قرضوں سے نجات کے لئے سادگی پر مبنی معاشرت اختیار کرنے کے بغیر معاشی سرخروی کی دوسری کوئی صورت نہیں لیکن اِس سادگی کو اختیار کرنے میں نہ تو حکمراں طبقات کی دلچسپی ہے اور نہ ہی عام آدمی قومی معاشی بوجھ کم کرنے میں اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔