بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

یہ کوئی زیادہ دور عرصے کی بات بھی نہیں کہ جب یہ کہا جاتا تھا کہ گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے سوویت یونین گوادر کے مقام پر اپنا سیاسی اثر رسوخ قائم کرکے وہاں وہ ایک بین الاقوامی بندر گاہ بنانا چاہتا ہے اس مقصد کیلئے سوویت یونین نے جو سیاسی حکمت عملی اپنائی وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی اور الٹا اس کی بدنامی کا سبب بنی۔ چین نے سی پیک کے ذریعے دانشمندانہ انداز سے گوادر تک رسائی حاصل کی گوادر کے ذریعے گرم پانیوں کو دنیا کے دیگر ممالک تک روسی گیس پہنچانے کیلئے اسے اپنے استعمال میں لائے گا۔ یہ بھی نیرنگ سیاست ہے کہ آج سے چند برس پہلے پاکستان سوویت یونین کے مخالف بلاک میں تھا اور ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ سوویت یونین نے پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے اس کے گرد سرخ دائرہ بھی کھینچا تھا اور آج اسی روس کے ساتھ پاکستان قریبی تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہے اور کئی شعبوں میں تعاون کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ آئندہ دو تین برسوں میں دنیا کے سیاسی نقشے پر مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کی قیادت میں دو متحارب گروپس بن گئے تھے جو تا دم تحریر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں مستقبل میں بھی لگتا ہے دو ہی گروپس ہوں گے ایک کی سرپرستی روس اور چین مشترکہ کریں گے تو دوسرے کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ تاہم پاکستان کو کس کا ساتھ دینا چاہئے اس حوالے سے کوئی مغالطہ نہ ہو کہ آ زمائے کو آ زمانا نا جہالت ہوتا ہے لہٰذا وطن عزیز کے ارباب بست و کشاد اگر اس ملک کو امریکہ سے جتنا دور رکھیں گے اتنا ہی یہ اس کیلئے بہتر ہوگا۔ امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نے ماضی میں اگر نقصان اٹھایا ہے تو مستقبل میں بھی ہمیں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان یا گھاٹے کا سودا ہی ہے کہ کوئی ملک امریکہ پر اعتماد کرکے اس کیلئے دیگر ممالک سے تعلقات کو کشیدہ کرے۔ اس کی بہترین مثال حال ہی میں یوکرین کی صورت میں سامنے موجود ہے جس نے امریکہ اور نیٹو کی خاطر روس سے دشمنی مول لی اور اب جب اسے مدد کی ضرورت ہے تو امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں اور کہا کہ وہ روس کے نیٹو ممالک تک رسائی کو روکے گا جبکہ یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں ہے۔ اس پر امریکہ کا یہ اقدام اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ اس نے یوکرین کے صدر کو ملک چھوڑنے کیلئے فلائٹ کی سہولت دینے کی پیش کش کی۔ایسے حالات میں کہ جب جنگ زرو پر ہے امریکہ کے کہنے پر آکر اگر یوکرین کے صدر ملک چھوڑ دیں تو اس کاواضح مطلب ہے کہ فوج بھی ہتھیار ڈال دے۔ یعنی امریکہ یوکرین کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے اس کا مورال گرا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والا وقت چین کا ہے جس کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات پہلے سے ہی استوار ہیں اور اب روس کے ساتھ بھی اگر پاکستان کے قریبی تعلقات ہونگے تو یہ ہر طرح سے پاکستان کے فائدے میں ہے۔