روس کی یوکرائن میں فوجی کاروائی اور مذاکرات کی دعوت غیرمتوقع نہیں لیکن امریکہ اور اِس کے اتحادی روس سے متعلق جن توقعات کا اظہار کر رہے تھے وہ پوری نہیں ہوئیں۔ امریکہ کا خیال تھا کہ صدر پیوٹن کریمیا اور ڈونباس جیسی کوئی چھوٹی موٹی کاروائی کریں گے اور امریکہ کی جانب سے روس یا صدر پیوٹن کو کمزور نہ سمجھنے کا دعویٰ اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ امریکی انتظامیہ چین کو اصلی چیلنج قرار دیتی رہی ہے جبکہ روس کو کم خطرناک کہا جاتا رہا ہے۔ صدر بائیڈن روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر چین کے مقابلے پر توانائیاں اور وسائل خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے اس لئے اب ان کا یہ کہنا کہ انہوں نے پیوٹن کو کمزور نہیں سمجھا‘ سیاسی بیان ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جواب ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن اور ان کے منصوبے کو سراہا تھا۔ روس کے ساتھ تعلقات بہتری کے لئے صدر بائیڈن نے اپنے ہم منصب کے ساتھ پچھلے سال جون میں سربراہی ملاقات بھی کی تھی اور نیو سٹارٹ معاہدے میں پانچ سال توسیع پر بھی اتفاق کیا تھا۔ بائیڈن نے وسطی ایشیا میں روس کے فوجی اڈوں کو استعمال کرکے افغانستان میں دہشت گردی پر نظر رکھنے کی تجویز پر بھی غور کیا تھا۔ یوں واضح ہوگیا کہ صدر بائیڈن نے اندازے لگانے میں کئی غلطیاں کیں جن کے نتائج انہیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ صدر پیوٹن امریکی اندازوں سے زیادہ ہوشیار نکلے ہیں اور انہوں نے واشنگٹن کی توجہ کسی اور طرف پاکر بیلا روس اور یوکرین کو اپنے زیرِ اثر لانے کی منصوبہ بندی شروع کردی اور آج وہ یوکرین کو قبضے میں لے کر یورپ اور نیٹو کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ دوسری طرف چین اور روس کبھی مثالی اتحادی نہیں رہے۔ یوکرین پر حالیہ حملہ بھی بیجنگ کے برسوں پرانے اور مستقل مؤقف سے میل نہیں رکھتا کہ ملکوں کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہئے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی سے بھی گریز کیا جانا چاہئے لیکن اس کے باوجود بیجنگ اس بار ماسکو کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے اور چین کی وزارت ِخارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے روس کو جارح ملک کہنے سے گریز کیا اور کہا کہ ماسکو کو اشتعال دلایا گیا اور اس کے پاس دیگر کوئی آپشن نہیں رہنے دیا گیا تھا۔ صدر بائیڈن جمہوری ملکوں کے اتحاد یا بلاک کی پالیسی کے ساتھ اقتدار میں آئے‘ یوں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ خود دنیا کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہتھیار بنا رکھا ہے‘ جہاں چاہتا ہے جمہوریت کی حمایت کے بہانے احتجاج اور تحریکیں برپا کروا دیتا ہے اور مرضی کی حکومتیں بنواتا ہے۔ سوویت یونین کی سابق ریاستوں میں بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی اسی پالیسی کے تحت مزاحیہ اداکاری سے صدارت تک پہنچائے گئے۔ بیجنگ امریکہ کے اس جمہوری ایجنڈے کو خطرہ سمجھتا ہے اور ہانگ کانگ میں حالیہ احتجاج اس کی ایک مثال ہے۔ تائیوان کو بھی جمہوریت کے نام پر چین کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے۔ صدر شی جن پنگ ایسے احتجاج کو بزورِ طاقت دبانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ تخفیف ِاسلحہ کے معاہدے بے اثر ہونے کے بعد امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ اب مزید بجٹ بڑھائے گی۔ فوج کی تعداد بھی بڑھے گی اور میزائلوں پر بھی پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ امریکہ جو جنگوں سے جان چھڑا کر معاشی مقابلے کی تیاری کر رہا تھا مگر اب ایک بار اسی دلدل میں واپس دھنس جائے گا۔ بیجنگ نے جنوبی بحیرہ چین میں فوجی اڈے بنانے کے ساتھ دور دراز فوجی اڈوں کے حصول پر کام تیز کر رکھا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل دنیا کی کئی بندرگاہیں اس کے مستقبل کے فوجی اڈوں میں بدل سکتی ہیں۔ یوکرین جنگ کے نتیجے میں امریکہ اور اتحادیوں نے ماسکو پر جو معاشی اور ٹیکنالوجی پابندیاں عائد کی ہیں ان کے نتیجے میں روس کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا اور دونوں کا اتحاد مضبوط ہوگا۔ امریکہ اور اتحادیوں نے فوری طور پر عائد کی گئی پابندیوں میں بین الاقوامی بینکنگ نظام (سوئفٹ) کے حوالے سے پابندیاں شامل نہیں کیونکہ امریکہ اور اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ چین اور روس مل کر ادائیگیوں کا نیا نظام وضع کرلیں گے۔ یورپ کا توانائی کے لئے روس پر انحصار ”بڑا مسئلہ“ ہے اور توانائی کا مسئلہ اب قومی سلامتی میں شامل ہوگیا ہے۔ نیٹو اتحاد بھی مستقبل میں فوجی اخراجات کی وجہ سے بکھر سکتا ہے‘ جیسے ماضی میں سابق صدر ٹرمپ نیٹو کو طفیلی قرار دے کر دفاعی رقم بڑھانے کے لئے دباؤ ڈالتے تھے‘ یورپی ملک بھی دفاعی اخراجات میں اضافے سے اختلافات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یوکرین پر روس کا قبضہ ہوگیا تو روس کی بری‘ بحری اور فضائی افواج پولینڈ‘ سلواکیہ‘ ہنگری اور رومانیہ کے سر پر ہوں گی جبکہ مالدووا پر بھی روسی کنٹرول کا خدشہ ہے۔