بعض گھریلو ذمہ دار شادی شدہ خواتین بارش سے بہت الرجک ہوتی ہیں۔وہ لڑکیاں تونہیں ہوتیں کہ جن کو بارش کی رجم جھم بہت پسند ہوتی ہے۔کیونکہ یہ لڑکپن تو بے فکری کی زندگی ہوتی ہے۔مگر جو ذمہ دار ہیں وہ بارش کے نام سے توبہ توبہ کرتی ہیں۔کیونکہ ان کو بہت سے گھریلو کام کرنا ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کام بارش کے ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ رہ جاتے ہیں۔مثلاً کپڑے دھونا ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو مہینے بھر کے کپڑے واشنگ مشین میں جمع ہوجاتے ہیں۔ان کے دھونے کو اگلے دن مشین لگانے کا پروگرام ہوتا ہے۔مگر رات کو آسمان پر گڑگڑاہٹ شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر میگھا شراٹوں سے برسنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کو بادلوں کا دور دور تک پتا نہیں ہوتا۔ بندہ آرام سے سو جاتا ہے۔چلو صبح مشین لگاکر کپڑے دھوئیں گے۔ بعض گھروں میں اس دن ہنڈیا بھی چولھے پر چڑھ نہیں پاتی۔ پچھلے دن کا کھانا سٹور کر کے رکھا ہو تا ہے۔مگر رات سوئے تو معلوم نہیں کس وقت بادلوں کی چھاگلیں آہستہ رو جیسے بلی کمر کے پیچھے سے اور عمر آنکھوں کے آگے سے دھیرے دھیرے پوری کی پوری گذر جائے۔ اسی طرح بارش کا حال بھی معلوم نہیں ہوپاتا۔صبح اٹھو تو پھوار نے سارا عالم جل تھل کر دیا ہوتا ہے۔اس دن میلے کپڑوں کے دھونے کا پروگرام جو منسوخ ہوجاتا ہے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ ہلکی بارش بھی ہوتو دو دن جاری رہتی ہے۔جس کی وجہ سے گھر کے سارے کام جن کا تعلق باہر سے بھی ہوتا ہے وہ بھی ساتھ کڑکی ہو جاتے ہیں۔خاتون ِ خانہ جلتی کڑھتی رہتی ہے۔ مجھے بارش اسی لئے اچھی نہیں لگتی۔ ان کے منہ سے سارا دن یہی جملہ او راس قماش کے دوسرے کلمات سننے کو ملتے ہیں۔پھر انھی دنوں بادل سرِ آسمان لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح خوفزدہ کر دیتے ہیں۔جب برستے ہیں تو بچوں کے کپڑے اور زیادہ میلے ہو کر او ران کے پائنچے کیچڑ سے آلودہ ہوکرجمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اس پر ذمہ دار گھریلو خواتین اور زیادہ تلملا اٹھتی ہے۔ابھی بہار کی آمد کااعلان چکا ہے۔بادلوں نے نقارہ بجا دیا ہے۔شاخوں پر کلیوں کے بور آ چکے ہیں۔ ابھی بہار کا بادل جم کر برسے گا۔ پھر انتظامی خواتین پلاننگ کرنا شروع کردیتی ہیں۔بعض گھروں میں کپڑے دھونے اور سکھانے کیلئے رسی پر ڈالنے کے انتظامات ہوتے ہیں۔مگر بعض گھروں میں گنجائش نہیں ہوتی۔پھر گھر میں کوئی ایسا نہیں ہوتا کہ ساتھ والے گھر میں جاکر بالٹی میں کپڑے ان کی چھت پر دیواروں او ررسیوں پرڈال کر آئے۔ یہ بھگتان بھی گھریلو خواتین نے کرناہوتی ہے۔اس لئے وہ ساتھ مکان کی چھت پر جا کر کپڑے کھلار کر آتی ہیں۔یہ زحمت ان بیچاریوں کے حصے میں آتی ہے۔بارشوں میں تو خواتین کیا مرد بھی پریشاں حال ہو جاتے ہیں۔گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔گھر کے کام کاج جن کا تعلق باہر بازار سے ہوتا ہے ان میں خلل پڑ جاتا ہے۔پھر وہ کام جو انتہائی ارجنٹ ہوتے ہیں۔ سودا سلف لانا وغیرہ وہ تو کرلیتے ہیں۔مگر دور نہیں جایا جاتا۔لیکن جن کی مجبوریاں ہوتی ہیں کہ دفتر میں وقت پر حاضری رجسٹر میں حاضری لگانا ہے اور انگوٹھا مشین کی سکرین پر انگوٹھے کانشان ثبت کر کے اپنی حاضری کو دور دراز کے بڑے دفتر میں بڑے افسروں کو بتلانا ہے۔وہ بھی بارش ہو آندھی طوفان ہوآفس جاتے ہیں۔انسان بھی کیا چیز ہے۔سردیوں کی بارشیں اکثر طبیعتوں پر ناگوار گذرتی ہیں۔مگر جب گرمی آ کراپنا قبضہ جما لیتی ہے تو خواتین کی روزانہ کی عادت بن جاتی ہے۔ بچوں سے پوچھتی ہیں دیکھنا موسم کی کیا صورتِ حال ہے۔بارش ہونے کا امکان ہے کہ نہیں۔ گرمی سے تو جیسے جل گ ئے ہیں۔ یہ حال ان کا سردیوں میں بھی ہوتا ہے۔نیٹ سے کنفرم کرواتی ہیں کہ دیکھو بارش ہوگی کہ نہیں۔