پرانی تفریق: نئی جنگ

دوہزارچودہ میں جب روس نے اپنے فوجی یوکرین بھیجے تو درحقیقت اُس نے علامتی طور پر کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کا راستہ نکال لیا تھا روس کے خلاف مغربی رہنماؤں نے اس وقت بھی بیانات دیئے‘ عالمی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی گئیں لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس نے روس کو یوکرائن سے متعلق اپنے فیصلوں پر سنجیدگی سے نظرثانی پر مجبور کیا ہو۔ ایسا ہی کچھ اُس وقت بھی ہوا جب روس کے دشمن اور خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے پرانے اہلکاروں کو غدار قرار دیا گیا اور پھر ان کی پراسرار اموات برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ہوئیں۔ تب مغربی ممالک نے روس کی مذمت کی تھی اور اِسے خبردار کیا تھا کہ اِس کے خلاف نئی اقتصادی پابندیوں کو زیادہ سخت کیا جائے گا لیکن روس ایسی عالمی پابندیوں کے ساتھ جینے کو تیار تھا کیونکہ وہ اپنی حکمت عملی وضع کر چکا تھا۔روس کی تیاری ایک دو دن کی نہیں بلکہ وہ گذشتہ دس برس چین کے ساتھ مل کر نیا عالمی بلاک بنا رہا ہے جو لازمی نہیں کہ مغربی ممالک کے لئے جارحانہ عزائم رکھتا ہو لیکن یہ بلاک بہرحال مغربی ممالک کے اتحاد کا مثبت جواب اور مغرب کی جانب سے کسی تنقید کی صورت میں مشترکہ دفاع کی صورت مدد فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پوتن نے مذکورہ ”مشترکہ گروپ“ کی تشکیل کے بعد چین روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے سے انکاری ہے اور تائیوان جو چین کے زیر اثر ہے اور جس کے بارے میں چینی صدر نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ وہاں حملہ نہیں کریں گے‘ اب وہاں کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یوکرائن کے بعد اگلی باری تائیوان کی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو مجموعی طور پر دنیا پر عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور یہ بادل جاری جنگ سرد کو مزید طول بھی دے سکتی ہے۔ ماضی و حال کا موازنہ کیا جائے تو پرانی سرد جنگیں آسان تھیں اور تب حکمرانی کے اصول بھی کافی واضح تھے۔ تب سرد جنگ کے دوران اگر کوئی ایک ملک دوسرے بلاک کے ملک پر حملہ کرتا تو مشترکہ تباہی کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا لہٰذا ایسا کبھی نہیں ہوا حالانکہ ایک سے زیادہ مرتبہ دنیا عالمی جنگ کے بہت حد تک قریب آ چکی تھی۔

کمیونزم کے خاتمے کے بعد سے پرانے اصولوں کی کتاب کو شاید ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے اور اب سرحدیں اتنی مبہم ہو چکی ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ خطرے کی حد (ریڈ لائن) کہاں ہے‘جسے اُس نے عبور نہیں کرنا۔ماضی میں جھانکا جائے تو اب بھی بہت کچھ ویسی صورتحال ہے۔ چند سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شاید نیٹو کو دیوار برلن کے گرنے کے بعد اپنے نظریہ کو مکمل طور پر تبدیل کر دینا چاہئے تھا۔ اسے مشرقی یورپ میں موجود اپنے پرانے سیٹلائٹس کو استعمال کرتے ہوئے ماسکو کی تذلیل نہیں کرنی چاہئے تھی اور انہیں اس طرح ایک ساتھ قطار میں کھڑا نہیں کرنا چاہئے تھا جس سے بظاہر پوتن کے روس کو تصادم کا راستہ اپنانا پڑا۔ یہ تجویز کہ ایک دن شاید یوکرین بھی نیٹو اتحاد میں شامل ہو جائے (جبکہ ایسا ہونے کی توقع بہت کم ہے) اور کریملن پر چڑھائی کر دے اور روسی صدر پوتن کو اس بات پر اکسانے پر مجبور کر دے کہ وہ ہمیشہ کے لئے یوکرین کے مسئلے سے نمٹ لیں۔ آٹھ برس قبل صدر پوتن یوکرائن کے ایک حصے کریمیا کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اپنے ملک میں ان کی ساکھ کو بہت سہارا اور مضبوطی ملی تھی اور ایک مرتبہ پھر روس کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ اِس مرتبہ وہ یوکرین فوج کے بیچ سے راستہ بناتے دوبارہ کامیاب ہو جائیں اور اپنے ملک کے لئے کچھ اہم فائدے بھی حاصل کر لیں اور پھر تیزی سے وہاں سے روسی افواج کا انخلا کریں اور ’وکٹری پریڈ‘ میں اِس بات کا جشن منائیں کہ اُنہوں نے اپنے اہداف حاصل کر لئے ہیں۔ جب کبھی یوکرائن حکومت نے روس کی ناراضگی مول لی اُسے ایک بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ حب الوطنی اور قومی مفادات اگر پیش نظر ہوں تو ایسی قیادت کے سامنے کسی ایک ملک تو کیا نیٹو جیسے سنگدل اتحاد کو قدم جمانے میں کامیابی نہیں ہوتی۔