ٹی وی والے گھر آئے تھے۔ہماری فیملی کے ساتھ پروگرام ریکارڈکیا۔ یہ ریکارڈنگ خون کا عطیہ دینے کے حوالے سے تھی۔ فیملی کے ساتھ اس لئے کہ میرے علاوہ میری اہلیہ نے بھی 50 سے زاید مرتبہ خون کا عطیہ دے رکھا ہے۔ان کو فاطمید فاؤنڈیشن اور دعا ہسپتال نے خون کے عطیات پر سرٹیفیکیٹ دے رکھے ہیں۔ پھر میرا بیٹا بھی ہے جس نے اسی طرح 50 مرتبہ بلڈ ڈونیشن دیا ہے۔وہ پشاور ماڈل ڈگری کالج میں انگریزی کا لیکچرار ہے۔میں نے ابھی کچھ دن پہلے 137ویں بار خون عطیہ کیا۔حالانکہ میں نے دو سال سے خون عطیہ کرنے کا سلسلہ موقوف کر رکھا تھا۔ میری بلڈ ڈونیشن پر سول ایوارڈ کی فائل پرائڈ آف پرفارمنس کے سلسلے میں گردش کر رہی ہے۔جب مجھے وہا ں بلایا گیا۔اسی دوران مجھے خون کی تنظیم والوں نے فون کیا کہ آپ کا اے پازیٹیو بلڈ گروپ چاہئے۔
تھیلی سیمیا مرض کے ایک بیمار بچے کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے ہاں اس وقت خون دستیاب نہیں۔میں نے کہا میں ایک انتہائی ضروری کام کے لئے سیکشن آفیسر جنرل کے انتظار میں بیٹھاہوں۔ جوں ہی ان سے ملاقات ہو جائے میں آتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کو اچھی طرح معلوم ہے میں نے خون دینا روکا ہواہے۔لیکن فون پر ابھرنے والی آواز نے کہا بچہ ایمرجنسی کی حالت میں ہے۔یہ سنتے ہی میں نے کان سے فون لگائے بات جاری رکھی اور سڑک پر اُترنے والی سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ پھر چھ منٹ کے اندر اندر قریب جی ٹی روڈ پر واقع اس ہسپتال میں پہنچ گیا
۔ یہ معصوم بچے بھی آخر کسی کے بچے ہیں۔بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کی شکلیں گھوم گئیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ سوچااگر اس بچے کو کچھ ہوجائے اور میں نے اس کو خون نہیں دیا تو میں اپنے آپ کو معاف نہیں کروں گا۔اس طرح کے سینکڑوں بچے ہر روز خون کے ہسپتالوں میں خون چڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ان کو یہ خیر خواہی کی تنظیمیں خون مہیا کرتی ہیں۔مگر جس وقت خون نہ ہو تو بچوں کو انتظار میں رکھا جاتا ہے۔یہاں وہا ں فون کئے جاتے ہیں۔ایک دو دن میں کوئی نہ کوئی خون دینے کے لئے آ ہی جاتا ہے۔پھر بلڈ تنظیمیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گاہے گاہے اپنے کیمپ لگاتی ہیں۔ وہاں سے ان کو بیگ مل جاتے ہیں۔ نوجوانوں کا خون زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ان کی بہ نسبت جو گئی گذری عمرکے لوگ ہوتے ہیں۔میں نے جب اس بچے کو خون دے دیا تو بچہ گویا مرجھایا ہوا پھول دوبارہ سے کھل اٹھا۔ بچہ ہشاش بشاش ہوگیا۔ جہاں اس کے والدین کے چہروں پر اطمینان کی لہر دوڑگئی وہاں میری روح میں بھی توانائی سے بھرپورایک تاثر قائم ہواکہ چلو میں کسی کے کام آگیا۔ انسان دنیا میں زندہ ہو اورکسی کے کام نہ آ سکے یہ بہت بڑی محرومی ہے۔پھر ایسا کام جس میں ایک قطرہ خون کسی کی جان بچا سکے۔پھروہ بھی بچوں کی۔مجھے تو اس اطمینان سے جو سکون حاصل ہوتا ہے اس کانعم البدل کوئی نہیں اور اس کا بیان الفاظ میں نہیں ہو سکتا۔جسم وجاں میں کمزوری تو کیاہوگی بلکہ حوصلہ اور بھی جوان ہو جاتا ہے۔میں 1987ء سے خون دے رہا ہوں۔
ایک سو سے زیادہ مرتبہ عطیہ تو خون کی بیماریوں کا شکار بچوں کو عطیہ دیا ہے۔پھر مجھ سے متاثر ہو کر میری خاتون نے بھی گاہے گاہے خون کے عطیات دیئے۔میرے ساتھ ٹی وی اور ریڈیو کے ہرچینل پر پروگرامات ہوئے ہیں۔ میرے شاگردوں نے مجھ سے کہہ کر اور دوستوں نے فیس بک پر مجھے دیکھ کر خود مجھے بتلا کر خون کے عطیات دیئے ہیں۔حتیٰ کہ میری شاگرد لڑکیاں بھی خون کا عطیہ دے کر آئیں تو انھوں نے بطور رسید مجھ سے کہا سر ہم نے آپ کی وجہ سے بلڈ ڈونیشن دیا ہے۔زندگی میں اور کیا چاہئے۔ روپیہ پیسہ تو ہر ایک کے پاس ہے۔ اگر نہیں ہے تو آ جائے گا۔مگر یہ جو انعام ہے یہ کسی کسی کو ملتا ہے کہ کسی نہ کسی اندازمیں انسانیت کی خدمت کی جائے۔