کرکٹ غیرمتوقع اور ناممکن کو ممکن بنانے کا کھیل ہے۔ اِس عمومی تاثر پر یقین نہ آئے تو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن سیون مقابلوں کے آخری مقابلے (فائنل میچ) کا نتیجہ حاضر ہے جو اِس لحاظ سے دلچسپ رہا کہ لاہور قلندرز کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے جس ایک کھلاڑی نے غیرمعمولی (نمایاں) کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ اُس سے کسی کو بھی ایسا کرنے کی اُمید نہیں تھی اور محض دو دن پہلے اُس پر طنز و طعنوں کی بارش ہو رہی تھی۔ جی ہاں جب حفیظ نے فائنل کیلئے قلندرز ٹیم میں تبدیلی کی اور فل سالٹ کی جگہ ذیشان اشرف کو کھلایا تو کسی دل جلے نے کہا کہ فل سالٹ کو باہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘ باہر تو حفیظ کو ہونا چاہئے تھا۔ شائقین کرکٹ ”اسلام آباد یونائیٹڈ“ کے خلاف ناک آؤٹ مقابلے میں ان کی اٹھائیس گیندوں پر اٹھائیس رنز کی مایوس کن اننگ بھولنے کو تیار نہیں تھے! حفیظ کو عرف عام میں پروفیسر کہا جاتا ہے اور اِس تبصرے تنقید پر اُنہوں نے کسی کو جواب نہیں دیا لیکن شائقین کو یاد رہے گا کہ جب فخر زمان مسلسل دوسرے مقابلے میں ناکام ہوئے اور لاہور کی تین وکٹیں پاور پلے کے اندر ہی گر گئیں تو قلندروں کا تمام تر دار و مدار حفیظ پر ہی تھا اور حفیظ نے مزید کسی وکٹ کے نقصان سے پہلے پہلے لاہور کو آدھی منزل تو پار کروا دی۔ دسویں اوور تک چوتھا نقصان نہیں پہنچا لیکن ان کی تمام تر کوششیں بھی اسکور کو پندرہ اوورز میں ایک سو تین رنز تک ہی لا پائیں۔ یہاں وقفہ ہوا‘ وہی اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ کہ جو تقریباً ہر میچ کا رخ بدل دیتا ہے‘ جس نے اِس مرتبہ لاہور کی قسمت بدل دی۔ ملتان سلطانز جو پورے ’سیزن سیون‘ کے مقابلوں میں بہت کم دباؤ میں نظر آئے بلکہ لاہور قلندرز ہی کے خلاف ایک میچ میں دوسوسات رنز جیسے بلند ہدف تک کا تعاقب کر چکے تھے لیکن قلندروں کے اکھاڑے میں سلطانوں کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ وہ حالات بھی مختلف تھے اور مقابلہ بھی۔ لاہور کا قذافی سٹیڈیم قلندروں کا ہوم گراؤنڈ تھا یہاں مقابلہ صرف گیارہ حریف کھلاڑیوں سے نہیں بلکہ ان کی حمایت کیلئے میدان میں آنے والے ستائیس ہزار تماشائیوں سے بھی تھا۔ شاید اسی لئے فائنل میں ملتان سلطانز کا وہ روپ نہیں دکھائی دیا جو ہم نے پورے سیزن میں دیکھا تھا۔ اوپنر شان مسعود کو کیچ چھوٹنے کی بدولت زندگی بھی ملی لیکن وہ اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور فخر زمان کے ایک دم نشانے پر لگنے والے تھرو کی بدولت رن آؤٹ ہوگئے۔ رائلی روسو کو مواقع ملے‘ کیچ کے ساتھ ان کا رن آؤٹ بھی بچا لیکن ان کے نصیب میں بھی ناکامی رہی۔ لاہوری ہر گزرتے اوور کے ساتھ مقابلے پر غالب آتے گئے اور ہر گرنے والی وکٹ پر باجوں اور نعروں کی گونج آسمان کو چیرتی رہی اور پھر سلطانز حوصلے ہار گئے۔ لاہور کی کامیابی کے ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ لیگ کی تمام چھ ٹیموں نے کم از کم ایک مرتبہ ٹائٹل ضرور جیت لیا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے سب سے زیادہ دو مرتبہ جبکہ باقی ٹیموں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز‘ پشاور زلمی‘ کراچی کنگز اور ملتان سلطانز نے ایک ایک بار سپر لیگ کی ٹرافی اٹھائی ہے۔ ویسے ایک دوسری تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔ اگر ملتان سلطانز جیت جاتے تو وہ اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرنے والی بھی پہلی ٹیم ہوتی۔ خیر یہ ریکارڈ کبھی نہ کبھی تو ٹوٹے گا۔ شاید اگلے سال لاہور قلندرز ہی توڑ دے؟ شائقین کو اگلے سیزن کی لیگ مقابلوں کا انتظار کرنا پڑے گا جس میں قلندرز کو دفاع جبکہ سلطانز کو اپنی محنت کا صلہ ملنے کی قوی اُمید ہے اور یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی بھی کھیل اور بالخصوص کرکٹ میں ہار جیت حوصلوں کی نہیں ہونی چاہئے۔