یہی سردیوں کے دن تھے۔جی ٹی روڈ کے سٹاپ پر سے میں منی بس میں سوار ہوا۔یونیورسٹی جانا تھا۔ میرے ساتھ سیٹ پر ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے تھے۔ مونگ پھلی کا شاپر ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔ چھیلتے جاتے او رکھاتے جاتے۔ ساتھ ساتھ اس کے چھلکے بس کی کھڑکی میں سے ذرا ہاتھ باہر نکال کر سڑک پر پھینک رہے تھے۔ میں اول تو صورتِ حال کا جائزہ لیتا رہا۔دل میں کہا اس کو روکناکاہے کوچھوڑو لگا رہے۔مگر پھر کسی انجانے خیال کے تحت میں نے سوچا او راس سے کہا آپ تو پورے پشاور کو گندا کر رہے ہیں۔اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔اس کو سمجھ نہ لگی۔ کہنے لگا کیا مطلب۔اس وقت میں نے اپنے سرپر پہنی ہوئی اونی ٹوپی اتار کر اس کے آگے کر دی۔انتہائی تمیز کے ساتھ عرض کیا۔آپ مونگ پھلی کے چھلکے اس میں پھینکتے جائیں۔آپ کا من بھاتا کھاجا یہ بھوجن ختم ہو لے میری امانت یہ ٹوپی میرے حوالے کر دیں۔میں جانوں او ریہ گند گریل جانے۔مجھے مزید حیرانی کے سمندر میں ڈبکیاں لگانا پڑیں۔یہ کہ بھائی صاحب نے ایساہی کیا۔میں بھی چُپ رہا۔کیونکہ یہ میری ہی نکالی ہوئی ترکیب تھی۔پھر واقعی جب بس سٹاپ آنے لگا تو وہ کہیں راستے ہی میں اتر گئے۔اُترنے سے پہلے انھوں نے مہربانی فرمائی اور چھلکوں سے بھری اونی ٹوپی مجھے حوالے کر کے چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد میں دیر تک سوچ میں مبتلارہا۔وہ یہ کہ پھولوں کا یہ شہر خودہی تو گندانہیں۔یہ تو ہمی نے اس کو گندگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک تعلیمی ادارے میں جاناہوا تھا۔ دو ایک کاغذ جو اضافی تھے میں نے پھاڑ دیئے۔مگر دائیں بائیں کوئی کوڑے کی باسکٹ نظر نہ آئی کہ اس میں ڈالتا۔ اس وقت بھی حیرانی ہوئی اور پھر یہ حیرت بھی کہ آئندہ چل کر اگلے زمانے کی ایک منی بس میں بھی میرے ساتھ ایسا ہوگا۔ وہاں میں نے کاغذ کے پرزے اپنی کتاب میں ڈال دیئے۔جہاں جہاں گیا وہ پرزے میرے ساتھ ساتھ جاتے گئے۔ کیونکہ کہیں بھی مجھے کوڑے کی ٹوکری نظر نہ آئی۔میں وہ اون کی بنی ٹوپی بھی لے کر گھومتا رہا او رمجھے گند پھینکنے کے لئے کوئی مناسب جگہ نظر تلے نہ آئی۔سو میں نے اپنے بیگ میں وہ ٹوپی جوں کی توں ڈال دی کہ چلو کہیں باسکٹ نظر آئی تو اس آلائش اس آزمائش سے نجات حاصل کر لوں گا۔اس حوالے سے مجھے میڈم شاہین عمر پرنسپل گرلزکالج کی تعریف کرنا ہے۔وہ جہاں ٹرانسفر ہو کر جاتی ہیں کالج کو آئینہ بنا دیتی ہے۔باچا خان گرلز کالج پشاور کے ہال میں ایک مشاعرہ کروایا تھا۔ہم بھی وہاں مدعو تھے۔ بچیوں سے ہال کچھا کچھ بھراہوا تھا۔رنگا رنگ پروگرام تھا۔ سٹیج پر خاکے بھی پیش ہوئے۔جب ہم لوگ اختتامِ پروگرام چائے کے لئے ہال نما ایک کمرے میں جانے لگے تو راستے میں انھوں نے پوچھا کہو صبیح ہمارا کالج پسند آیا۔ میں نے کہا یہ بات بہت اچھی لگی کہ کہیں کاغذ کا ایک پرزہ تک نظر نہ آیا۔ ہنسنے لگیں۔ فرمایا مجھے کہیں کوئی چھوٹا موٹا گند بھی پڑا ہوا نظر آئے تو میرے عملے کی خیر نہیں ہوتی۔ایک بار ہم پارک میں بچوں کے ساتھ گئے۔وہاں سیمنٹ کے بڑے ہاتھی کے پاس بچوں کو جھولا جھولتے دیکھ رہے تھے۔ وہاں ذرا دور کر کے ایک خاکروب اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں مصروف تھا۔ ہم ٹہلائی میں مصروف ہوگئے۔جب اس کے پاس سے گذرے تو وہ بہت سخت جلا بھنا ہوا ملا۔سلام کلام کے بعد عادتاً سوال کرنے کو جی چاہا۔ میں نے پوچھا آپ بار بار ایک ہی جگہ پر کیوں جھاڑو سے زمین کو جیسے چھیل رہے ہیں۔ اس نے بہت افسوس کیا۔ کہا پورا شہر صاف کروا لو مجال ہے کہ منہ سے اف تک نکلے۔مگر یہ شہری جو مونگ پھلی کے چھلکے گھاس کے ہرے میدان میں پھینک دیتے ہیں یہ جھاڑو کے ساتھ نکل نہیں پاتے۔ایک ایک کو ہاتھ سے اٹھانا پڑتا ہے۔ مگر یہاں تو باسکٹ اور ٹوکریاں ہوں بھی تو کمال ہے کہ ان میں کوڑا ہوتاہی نہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ شہری بہت صفائی پسند ہیں اور گند ڈالتے ہی نہیں۔مگر غور سے دیکھیں تو ٹوکری کے باہر آپ کو وہ گند جو باسکٹ کے اندر پھینکنا تھا زمین پر نیچے گرا نظر آئے گا۔اصل میں ہمیں عادت ہی نہیں۔ٹوکری میں گند ڈالنے کی عادت پڑ نے میں ہمیں بیس سال درکار ہیں۔پھر اسی عادت کے پختہ ہونے میں اور بھی تیس سال بکار ہیں۔کوڑے کے بڑے بڑے ڈمپر پڑے ہیں جوفرلانگ بھر کے فاصلے میں آج یہاں کل وہاں تھوڑا سرک کر آگے جا چکے ہوں گے۔شہری گند بھی ڈالتے ہیں اور ان ڈمپروں کے پاس نیچے زمین پر گراتے ہیں۔ہر آدمی کہتا ہے ہمارے گھروں کے آگے سے ڈمپر کو ہٹایاجائے۔سوچتا ہو ں کہ ایسے میں شہر کی صفائی کاکون سار استہ نکالا جائے۔