روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ صدر پیوتن چاہتے کیا ہیں اور اخلاقیات، بین الاقوامی قانون اور عالمی تعامل کی رو سے روسی اقدام کیسا ہے؟روس نے یوکرین پر کئی اطراف سے حملہ اور شدید بمباری کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے پڑوس یا سابقہ سوویت ریاستوں میں سے کسی کا نیٹو کی طرف جھکاؤ اس میں شمولیت یا اس کے ساتھ ساز باز برداشت نہیں کرے گا۔ اس نے قبل ازیں جارجیا کے خلاف بھی اس وجہ سے فوجی کارروائی کی تھی۔ پھر 2014 میں یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کیا۔ وہ یہاں یو کرین کی فوج کو گھیرنے اور ان سے ہتھیار ڈلوانے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ حمایت یافتہ حکومت قائم کرسکے۔ حملے کے بعد روسی صدر پیوٹن نے یوکرین کی فوج سے کہا ہے وہ یوکرینی حکومت کا تختہ الٹ دے اور پیشکش کی کہ روس آپ کے ساتھ معاہدہ کرنے کو زیادہ قرین قیاس سمجھتا ہے۔ پیوٹن کے بقول ان کا مقصد یوکرین کی عسکری صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ پیوٹن دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کو 'تاریخی روس کا انہدام' قرار دیتے ہیں اور روس کے درخشاں ماضی اور عالمی اثرو رسوخ کے احیا کے متمنی ہیں. پچھلے سال اپنے ایک تحریر میں انہوں نے روس اور یوکرین کو ایک قوم کہا تھا اور اب انہوں نے دعوی کیا ہے کہ جدید یوکرین مکمل طور پر کمیونسٹ روس نے تخلیق کیا تھا۔ وہ مشرقی یوکرین کی مرکزی بندرگاہ ماریوپول پر قبضہ بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے زیر کنٹرول کریمیا کو علیحدگی پسندوں کے علاقوں سے جوڑ سکے۔ وہ بحیرہ اسود پر یوکرین کی بندرگاہوں کی بحری ناکہ بندی کرکے یہ بھی دکھانا چاہتا ہے کہ یوکرین کے مغربی اتحادی کاغذی شیرہیں۔ روس کیلئے خود کو امریکی سازشوں سے بچانے، نیٹو کو محدود کرنے، اپنے سابقہ آزاد شدہ ریاستوں کو امریکہ کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے اور یورپ کو ڈرانے اور بازر کھنے کیلئے ایٹمی حملہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔ مغربی ممالک نے روس کو مالی ادائیگیوں کے عالمی نظام سوِفٹ سے نکال دیا تو پیوٹن نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی افواج کو تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ صدر پیوٹن نے کہا تھا کوئی یوکرین پر روس کی سرخ لکیریں عبور نہ کرے۔ یعنی نیٹو میں مشرق میں مزید توسیع کرنے اور یوکرین، جارجیا، فن لیں ڈ اور سویڈن کو شامل کرنے سے اجتناب کیا جائے، نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے یعنی پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھوانیا سے اپنی افواج اور پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ سے میزائل نظام ہٹادے اور نیٹو 1991 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔ واضح رہے چار سابق سوویت ریاستیں پولینڈ، ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھونیا نیٹو میں شامل ہوچکی ہیں۔ ان سب کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین تک محدود نہیں رہے گا۔ چنانچہ بالٹک ریاستوں میں امریکہ اور نیٹو کے اضافی فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک روس سے درآمد شدہ توانائی کے محتاج ہیں۔ پھر نیٹو ممالک جانتے ہیں کہ اگر وہ روس کے خلاف جنگ کریں گے تو چین روس کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ وہ سمجھتے ہیں صدر پیوتن صرف یوکرین کو بیلاروس کی طرح ایک اطاعت گزار ریاست بنانا چاہتے ہیں اور نیٹو ممالک پر حملہ نہیں کریں گے۔یوکرین اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے اور روسی حملے سے اس کی سالمیت و خودمختاری خطرے میں ہے مگر تنظیم اقوام متحدہ کچھ کر نہیں سکتی۔ اقوام متحدہ کے دستور کی دفعہ 51 کے مطابق ریاستوں کو جارحیت کی صورت میں حقِ دفاع حاصل ہے اور یوکرین نے عالمی عدالت انصاف میں روس کو جارح قرار دینے کے لیے مقدمہ دائر کردیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 3 کے تحت ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات پر امن ذرائع سے حل کریں گی۔ اسی دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کسی ریاست کی علاقائی سالمیت یاسیاسی آزادی کے خلاف یا اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی ناجائز قرار دی گئی ہے۔ پھر ذیلی دفعہ 7 کے تحت دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی ناجائز ہے۔ تاہم کسی ریاست کو دفعہ 2 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے کیلئے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی منظوری یا مخالفت سے پہلوتہی لازمی ہے۔ روس نے پچھلے دنوں وہاں اپنے خلاف مذمتی قرارداد کو ویٹو کردیا یوں بین الاقوامی قانون کی رو سے اب بھی وہ جارح ملک نہیں ہے۔ روس کی جارحیت زیادتی مگر عالمی طاقتوں کے تعامل کے مطابق ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک بھی کرتے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان،ویت نام، یمن اور افغانستان میں ان کی فوجی مداخلتیں تازہ واقعات ہیں۔ پھر امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وہ چار ملک ہیں جو مقامی آبادیوں کے قتل عام کے بعد گورے ممالک کے طور پر وجود میں آئے تھے۔یوں بھی اگر اپنے مفادات اور شہریوں کی حفاظت اور دشمن کو مستقبل میں حملے سے روکنے کیلئے پیش بندی (preemption) کے طور پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ہزاروں میل دور عراق اور افغانستان پر حملے کرسکتے ہیں تو وہ روس کی جانب سے اپنے پڑوسی یوکرین کے خلاف یہ حق استعمال کرنے پر تنقید کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔صدر پیوٹن کے خیال میں امریکہ افغانستان میں تازہ شکست کی وجہ سے دوسری جنگ سے پہلوتہی کررہا ہے اور چین کی حمایت سے وہ امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کی تحلیل کا حساب برابر کرسکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور یورپ صدر پوٹن کے اس اقدام کا سخت جواب دیتے ہیں تو وہ جنگ بڑھا دیں گے اور اگر وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو بھی روس حوصلہ پائے گا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یوکرین کو روس کے سامنے ڈٹے رہنے کی تلقین اور اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے مگر یہ بات واضح تھی کہ وہ یوکرین کیلئے روس سے لڑنے کا عزم و خواہش نہیں رکھتے۔ پھر یوکرین چونکہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اس لیے وہ نیٹو کی دفعہ پانچ کے تحت نیٹو کے اجتماعی سلامتی مدد کا اہل نہیں۔ اس وجہ سے روس اور نیٹو اتحاد کے براہ راست ٹکرا اور یوں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے ابتد میں کہا تھا کہ عالمی جنگ تب ہو گی جب امریکی اور روسی فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہوں گے۔روس نے پہلے ہی دو بڑے مقاصد حاصل کر دیئے تھے۔ ایک نیٹو اتحاد کو عوامی طور پر یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ وہ یوکرین کے دفاع کیلئے فوج نہیں بھیجے گا اور بیلا روس سے اپنی فوج کی تعیناتی کی اجازت بھی حاصل کرلی۔ امریکہ کی پوری کوشش باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت روس اور یوکرین کو لڑانے کی تھی۔ وہ چاہتا ہے روس پھر سابقہ سوویت یونین کی طرح اقتصادی بحالی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوجائے اور امریکہ سمیت اس کے اتحادی ممالک کے مفادات کو نقصان نہ پہنچا سکے۔