امریکہ اور اس کے اتحادی اتنی آ سانی سے روس کو چھوڑنے والے نہیں یہ جو پیوٹن نے ایک مرتبہ پھر ان وسطی ایشیا کے ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے توڑا تھا کسی صورت میں اس بات کوہضم کرنے کے موڈ میں نظر نہیں ا ٓرہے کہ وہ ممالک ایک مرتبہ پھر سوویت یونین کی شکل میں پلٹ آئیں۔ جس طرح انہوں نے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے سوویت یونین کو معاشی طور پر کنگال کر دیا تھا جو بعد میں اس کے زوال کا سب سے بڑا سبب بنا بالکل اسی طرح آج کل وہ روس کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے اور چین کو بھی دیوار کے ساتھ لگانے بعد امریکہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اسے اندازہ نہ تھا کہ روس اور چین یک جان دو قالب بھی ہو سکتے ہیں اور چین تھوڑے ہی عرصے میں ایک عظیم عسکری اور اقتصادی طاقت بھی سکتا ہے۔ پیوٹن کی شکل میں سٹالن اور خروشیف جیسے مضبوط لیڈر کا روس میں اقتدار میں آ نا بھی امریکہ کیلئے بڑا دھچکا تھا گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دنیا میں بشمول پاکستان اور بھی کئی واقعات رونما ہوئے پر یوکرائنی اور روس کا معاملہ ایسا تھا کہ جس کی وجہ سے دیگر مسائل پس پردہ چلے گئے۔اور اب تو یہ خبر بھی آئی ہے کہ امریکی وفد نے تائیوان کا دورہ کیا کیونکہ ان کا خدشہ تھا کہ یوکرائن اور رو س کے تنازعے کے دوران ہی تائیوان کو بھی چین اپنا حصہ بنا سکتا ہے اور وہاں پرفوج بھیج سکتا ہے۔اب ایسا ہونا حقیقت ہے یا پھر محض امریکہ پروپیگنڈا کہ جس کے ذریعے وہ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف تو اس نے روس کو یوکرائن کے مسئلے میں الجھا دیا ہے اور دوسری طرف چین کیلئے بھی میدان گرم کرنے کی سوچ رہا ہے۔ جہاں تک روس اور یوکرائن تنازعے کا معاملہ ہے تو یہاں پر امریکی ہاتھ اس حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یوکرائن کے موجود صدر کو مغربی ممالک ہی اقتدار میں لائے ہیں اور اس سے قبل جب روس نواز صدر یوکرائن پر حکومت کرتا تھا تو اسے جمہوریت اور عوامی مظاہروں کی آڑ لے کر حکومت سے ہٹا دیا گیا۔کہا جارہا ہے کہ یوکرائن کو روس کیلئے افغانستان بنایا جا رہا ہے اور مغربی ممالک سے لوگوں کو یوکرائن لا کر چھاپہ مار جنگ شروع کی جائے گی۔ایسا ہونا کچھ زیادہ بعید بھی نہیں۔دوسری طرف دیکھا جائے جس طرح یوکرائن سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو یورپ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے اور ان کیلئے سرحدات کو کھول دیا گیا ہے ایسا پہلی بار نظر آرہا ہے۔ اس حوالے مغربی ممالک کے تعصب کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ ہی عرصہ قبل جب شا م میں حالات زیادہ خراب ہوگئے تھے اور انہی یورپی ممالک نے کئے تھے۔ تاہم جب وہاں سے لوگ بے سرو سامانی کی حالات میں نقل مکانی کرنے لگے تو یورپ نے سرحدات بند کردیں اور بہت سے سمندر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وقت یورپی مبصرین جو یوکرائن سے نقل مکانی کرنے والوں کا نقشہ کھینچ رہے ہیں لگتا ہے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں اور شام و فلسطین والے کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں۔ کئی ٹی وی چینلز پر تبصرہ کرنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ افغانستان، شام اور فلسطین کے مہاجرین اور ان میں بڑا فرق ہے۔یہ مغربی ممالک کا دوغلا پن ہے جو اس وقت پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔