احساس ِغم

مسئلہ سیاسی سبقت کا ہے۔ حکمراں جماعت کیلئے سبقت برقرار جبکہ حزب اختلاف کیلئے سبقت کا حصول ’پارلیمانی نظام حکومت‘ میں عددی برتری سے مشروط ہے لیکن اِس پوری ’جمع تفریق‘ سے الگ مہنگائی کی چکی میں پسنے والا عام آدمی (ہم عوام) کا نکتہئ نظر قطعی مختلف ہے جس کیلئے مایوسی کے ماحول میں ’عمومی احساس‘ کی کرن دکھائی دی ہے اور یہ اُمید وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطاب (اٹھائیس فروری) کی سب سے اہم بات (جسے خوشخبری قرار دیا جا سکتا ہے) یہ ہے وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے اور بجلی کے نرخوں میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والی عالمی صورتحال کا بھی ذکر کیا اور اِس تناظر میں درپیش معاشی مشکلات کی جو تصویر پیش کی‘ اُس پر حقیقت پسندانہ غور ہونا چاہئے اور اِس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہئے کہ حکومت کو احساس ِغم نہیں۔ 
ظاہر سی بات ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی بھی جنس کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو اِس کے ثمرات عام آدمی تک خاطرخواہ نہیں پہنچتے لیکن حکومت کی طرف سے کسی جنس کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ عوام تک کئی گنا ہو کر پہنچتا ہے۔ ملک کے معاشی منظر نامے میں یقین دہانی کروائی گئی کہ اگلے بجٹ تک پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائیگا ابھی تک اس بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں کہ آیا اِس بارے میں عالمی مالیاتی ادارے کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں‘ بجلی گیس اور محصولات جیسے شعبوں سے متعلق کسی بھی قسم کے ردوبدل کے حوالے سے آئی ایم ایف اپنی رائے رکھتا ہے اور اگر وعدے پورے نہ کئے گئے تو مستقبل میں جرمانہ (سود واپسی کی شرح میں اضافے) کی صورت برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت نے عوامی مشکلات کو وقتی طور پر کم کرنے کا فیصلہ کیا ہو کیونکہ عام آدمی کو ریلیف چاہئے۔ 
’آئی ایم ایف پروگرام‘ کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے قرضوں پر اِس کے مثبت منفی اثرات کے حوالے سے بحث پالیسی ساز حلقوں میں مستقل ہوتی رہتی ہے تاہم ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سوچ اور بحث پارلیمان تک بھی جا پہنچی ہے اور حکومت احساس کارڈ‘ آئی ٹی سیکٹر کیلئے ٹیکس ریلیف‘ نوجوانوں انٹرن شپ پروگرام اور دیگر ایسے فلاحی اقدامات سے عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی سیکٹر) کیلئے ٹیکس ادائیگی سے استثنیٰ اور اِس شعبے کیلئے غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر عائد پابندیاں ہٹائی گئی ہیں لیکن ایسے فیصلے زیادہ غوروخوض کے متقاضی ہیں‘ جن سے وقتی فائدے کی بجائے طویل المدتی فوائد پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ ایسی ہی صورت میں معیشت اور دیگر شعبوں کی بہتری ہو سکتی ہے۔ کیا ضروری نہیں کہ داخلی و بیرونی سرمایہ کاری متوجہ کرنے کیلئے بھی اقدامات کا اعلان نہیں ہونا چاہئے؟ زرعی شعبہ زیادہ توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت نے عوام کو جو ریلیف فراہم کیا ہے وہ بروقت بھی ہے اور مشکل حالات میں ایک بہت بڑا قدم بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں یوکرائن روس تنازعے کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یقینا عوام کو ریلیف دینے کا جو قدم اٹھایا گیا ہے اس کا بوجھ حکومت کو خود اٹھانا ہے۔