کبھی تو راتوں رات اتنی شہرت مل جاتی ہے کہ آدمی سنبھال نہیں پاتا۔کبھی اس کے لئے عمر کے کتنے جوبن جلانا پڑتے ہیں پہلے تو خواہش ہوتی ہے کہ میں مشہور ہو جاؤں۔ اس کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لیتی ہے چٹکیاں کاٹتی ہے۔اس کیلئے کتنے حیلے بہانے تراشنا پڑتے ہیں۔ہم جن لوگوں کو ستارے سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ کسی آسمان کے تارے ہوں۔کوئی فن ہو شوبز ہو یا کسی طرح بھی وہ سرِ آسماں جگمگا رہے ہوں۔مگر خودان کے دل کا حال پوچھیں تو وہ کچھ اور کہیں گے۔ان میں سے بعض کہہ سکتے ہیں کاش میں گمنام ہوتا۔دن بھر کبھی ایک سے ملنا پڑتا ہے اور کبھی دوسرے سے میل ملاپ کی پینگیں بڑھانا پڑتی ہیں۔گویا فرازکے اس شعر کی طرح ”مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے ملنے والے۔صبح آ جائے کوئی شام کو آ جائے کوئی“۔یہ روزانہ کا معمول بن جاتا ہے اور زندگی مشینی سی بن کر گذرنے لگتی ہے۔
انسان میں شہرت کی خواہش فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔کون ہوگا جو مشہور نہیں ہونا چاہتاہوگا۔ہاں اگر کوئی مشہوری نہیں چاہتا تو مشہوری حاصل کرلینے کے بعدہی اس کے اندر یہ تمناپیدا ہوگی۔ اگر کوئی فلمی دنیا کی شہرت حاصل کرلینے والی ہستیاں ہیں یا سیاسی میدان کے شہسوار ہیں۔یا سرکاری لوگ ہیں وزیر وزراء وغیرہ جن کو ہر کوئی جانتا ہے۔وہ بغیر پروٹوکول اور سیکورٹی کے اپنے وطن میں کہیں گھوم نہیں سکتے۔وہ اپنی مرضی کے مطابق جہا ں دل چاہا کسی کے گھر جاکر سمانہیں سکتے۔ بازار میں سودا سلف لینے نہیں جا سکتے۔اگر وہ بازار جائیں اور سودا سلف لیں تو چھوٹی موٹی خریداری پر دکاندار ان سے بڑی رقم بھی نہیں جھاڑے گا بلکہ سامان فری میں دے سکتاہے اس بات سے سودا خریدنے والا خود تنگ ہو جائے گا۔ کہے گا یار آپ کو واسطہ دیتا ہوں مجھ سے رقم لے لو۔ اب کوئی عہدیدار ہو یا فلمی دنیا کے آسمان کا روشن ستارا ہو۔ وہ شہرکے گلی کوچوں میں اپنی مرضی کے مطابق چل پھر نہیں سکے گا۔ وہ چاہے گا کہ میں نہتا اور خالی ہاتھ جہاں چاہوں جس رشتہ دار دوست یار کے گھر میں جاؤں بس وہاں جا بیٹھوں۔مجھے راستے میں کوئی نہ روکے۔مجھ سے کوئی آٹو گراف نہ لے۔میرے ساتھ ہجوم کھڑا نہ ہو کوئی سیلفی نہ بنائے۔میں جہاں چاہوں منہ اٹھائے چلتا جاؤں۔میں دوسروں کو پہچانوں۔ مگر مجھے کوئی پہچان نہ پائے۔کوئی مشہور کھلاڑی ہو تو وہ بھی یہی چاہے گا۔
اب دلیپ کمار برسوں پہلے جب اپنے پیدائشی شہر پشاور آئے تو محلہ خدادا میں دن کے وقت اپنے آبائی گھر نہیں جاسکتے تھے۔ کیونکہ ان کو ملنا تو چھوڑصرف دیکھنے کے لئے سینکڑوں لوگ امڈ آتے تھے اسلئے وہ رات کے اندھیرے میں جب کسی کوکانوں کان خبرنہ ہوئی محلہ خداداد پہنچے۔گھر کواندرباہر سے دیکھا خوش ہوئے اور واپس ہو لئے۔فلموں ڈراموں کے بعض ولن بھی اپنے فلم کے برے کردار کی وجہ سے اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی باہر نہیں نکل سکتے۔کیونکہ ہمارے ہاں ولن سرِ بازار نا سمجھ شہریوں سے مار بھی کھا لیتے ہیں کشمیرکے حوالے سے مسلمانوں پر ظلم کرنے والا ڈرامہ کا کردار ایک پاکستانی شہری جب دوسرے شہر گیا تو وہاں کسی عورت نے اس کو گریبان سے پکڑ لیا۔ کہا تم مسلمانوں پر اتنا ظلم کیوں ڈھاتے ہو پھرباقاعدہ اسے دو ایک چپت بھی لگا دیں۔راہ چلتے لوگوں نے تماشا دیکھا تو اس کوخاتون کے پنجوں سے بچایا۔