دانشمندی کا تقاضا

اس بات کا حتمی فیصلہ تو خیر آ نے والا مورخ ہی کرے گا کہ جو بائڈن کا شمار امریکہ کے کمزور ترین صدور میں ہوگا یا حوصلہ مند صدور میں۔ پر سر دست تو وہ حالیہ امریکی تاریخ کے کمزور ترین صدر قرار دیے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں روس کے صدر پیوٹن ایک مضبوط قد آ ور سیاسی شخصیت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ یوں توروس اور چین دونوں کمیونزم کے پر چارک ہیں پر روس میں لینن اور چین میں ماو زے تنگ کے اقتدار میں آ نے کے بعد ایک لمبے عرصے تک ان دو ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی کا فقدان رہا اور امریکہ اور اس کے حواری ممالک نے ان سے کبھی بھی کوئی خطرہ محسوس نہ کیا۔ اسے آ پ چین اور روس کی خوش قسمتی کہہ لیجیے یا کوئی اور وجہ کہ جس دن سے ان دونوں ممالک کی قیادت کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ جب تک وہ یک جان ایک قالب ہو کر امریکہ کے سامنے کھڑے نہ ہوں گے ان کی کسی معاملے میں دال نہیں گلے گی۔
یہ بھی ان ممالک کی قیادتوں کی معاملہ فہمی ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ بغیر اقتصادی اور سائنسی ترقی کے وہ امریکہ کا کسی میدان میں بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ہماری قیادت نے اس ملک کو امریکہ کے بلاک رکھا اور خدا لگتی یہ ہے کہ اس دوران ہم نے نقصان ہی نقصان اٹھایا۔مغربی بلاک میں جانے سے روس کے دل میں ہمارے لئے نفرت کا جذبہ موجزن ہو گیا تھا۔تاہم اب لگتا ہے کہ پاکستان نے غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس کا یوکرین پر حملہ آور ہونے کا ایک خاص پس منظر ہے جس سے آگاہی ہونے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی چال ہے۔ یوکرائن میں کسی وقت روس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والا صدر موجود تھا جس نے یورپی یونین کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے انکار کیا تھا۔ تاہم جلد ہی امریکہ اور مغربی ممالک نے مل کر وہاں پر عوامی ہنگامہ آرائی شروع کی اور روس کے ساتھ دوستی رکھنے والے صدر کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس وقت یوکرین کے صدر زیلنسکی یورپ کے ساتھ قریبی تعلق جبکہ روس کے ساتھ دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ جس کا نتیجہ اب سب کے سامنے ہے اگروہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتا اور غیر جانبدار رہتا جس طرح کہ یورپی یونین کے کئی ممالک کی پالیسی ہے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہو رہے تو شاید یوکرین کی یہ حالت نہ ہوتی۔
جس طرح امریکہ اپنے پڑوس میں کسی بھی ملک کو روس کے حلقہ اثر میں جانے نہیں دے رہا اسی طرح روس بھی اسی پالیسی پرعمل پیرا ہے کہ اپنی سرحد پر وہ نیٹو ملک یا اس کے میزائلوں کو برداشت نہیں کرتا۔روس کے پڑوس میں صرف یوکرین ہی تو نہیں بہت سارے ممالک کے ساتھ اس کی سرحدات لگتی ہیں، تاہم کسی اور کے ساتھ اس کی کشیدگی نہیں، کیونکہ وہ روس کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں اور امریکہ کے اشاروں پر نہیں چلتے روس یوکرین جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلتا قطع نظر اس کے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سرد جنگ کا ماحول ابھی ختم نہیں ہوا اوراب بھی دنیا اس کے زیر اثر ہے۔