محاورہ ہے ’دانشمندی مشاہدے کا نچوڑ بھی ہو سکتی ہے۔‘ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سردمزاجی اور خاموش طرزحکمرانی پر تنقید کرنے والوں کے لئے خبر ہے کہ صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں بارہ نئی جامعات (یونیورسٹیاں) بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹیاں جغرافیائی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کی جائیں اور زیادہ سے زیادہ آبادی کے مراکز سے متصل ہوں تاکہ طلبہ کی رسائی اور استفادہ باسہولت رہے۔ یہ تصور اپنی جگہ انقلابی اور وقت کی ضرورت ہے۔ اگر کسی یونیورسٹی کا فاصلہ آبادی کے مراکز سے زیادہ ہوگا اور یونیورسٹی کے قیام کے وقت اِس کے جغرافیائی محل وقوع جیسے ”بنیادی پیرامیٹر“ کو دھیان میں نہیں رکھا جائے گا تو کیا اِس سے اعلیٰ تعلیم کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہوگا؟ پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تعلیمی بجٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور پالیسی کی سمت سے آگاہ کرنے کیلئے ان سوالات اور اِن سوالات سے پیدا ہونے والے ضمنی موضوعات پر بحث ہونی چاہئے کہ جامعات کے عالمی منظرنامے میں پاکستان کا وجود کہاں ہے اور کیوں ہے؟
ذہن نشین رہے کہ سال 2021ء کے دوران عالمی سطح پر 4126 جامعات میں پاکستان کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی 600 نمبر سے شروع ہوتی ہے جبکہ پہلی تین یونیورسٹیوں میں 2 امریکی (ہاروڈ یونیورسٹی اور ہاورڈ میڈیکل سکول) جبکہ ایک چینی یونیورسٹی (Tsinghua) شامل ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جامعات کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے رہنما اصول بھی ایسے ہیں کہ جس میں تدریسی عملے کی قابلیت و اہلیت کا معیار جانچنے کا پیمانہ سطحی ہے! لمحہئ فکریہ ہے کہ طلبہ کو داخلہ دینے کے وقت تو اہلیت کے معیار بلند سے بلند اور ایک سے بڑھ کر ایک امتحان تخلیق کئے گئے ہیں لیکن اساتذہ کی بھرتی کا امتحان خاطرخواہ شعبوں کا احاطہ نہیں کرتے۔ مذکورہ رپورٹ میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پروفیسرز کی حیران کن حد تک کم تعداد کو بھی اجاگر کیا گیا ہے یعنی اساتذہ کی افرادی قلت بھی ہے۔ فی یونیورسٹی سوشل سائنسز کے پروفیسرز کی اوسط تعداد سندھ میں تین اعشاریہ چھ‘ آزاد جموں و کشمیر میں صفر اعشاریہ تینتیس ہے۔ سندھ میں فی یونیورسٹی اوسطاً اٹھارہ اعشاریہ سینتیس پروفیسرز اور گلگت بلتستان میں حیران کن طور پر کم اوسط ڈیڑھ ہے۔ مجموعی طور پر سوشل سائنسز اور دیگر شعبوں میں پروفیسرز بالترتیب کل فیکلٹی سائز کا صفر اعشاریہ چوون فیصد اور پانچ اعشاریہ تیس فیصد ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے مقابلے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں حسب ضرورت تعداد میں پروفیسرز نہیں ہیں! مثال کے طور پر یئل یونیورسٹی میں سوشل سائنسز میں تقریباً اٹھارہ اعشاریہ باسٹھ فیصد پروفیسرز اور دیگر شعبوں میں تینتیس فیصد پروفیسرز ہیں جبکہ ہارورڈ اور اسٹینفورڈ میں بالترتیب پنتالیس اور چوون فیصد سے زیادہ پروفیسرز ہیں۔
پاکستان میں جامعات اور تعلیم سطح بہ سطح اور درجہ بہ درجہ تو ہے لیکن معیار کی فکر نہیں! سال دوہزار اکیس کے دوران میں ہیومن کیپیٹل انڈیکس میں پاکستان دنیا کے ایک سو ستاون ممالک میں سے ایک سو چونتیسویں نمبر پر تھا۔ اس کے علاوہ اسی سال ایک سو بتیس معیشتوں میں سے‘ پاکستان گلوبل انوویشن انڈیکس میں ننانویں نمبر پر تھا۔ یہ درجہ جو ملک کی کم شرح خواندگی اور نمایاں کمی کی نشاندہ کرتا ہے۔ انسانی سرمائے (افرادی قوت)‘ تحقیق اور مارکیٹ کی ضرورت و نفاست کے لحاظ سے کمزور ترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے‘ نت نئی یونیورسٹیوں کا کھولنا خوش آئند ہے جس قد ر علم کے سر چشمے زیادہ ہوں علم کی روشنی زیادہ پھیلے گی تاہم ساتھ ہی جامعات کی تعداد بڑھانے کے ساتھ اِن کے معیار میں اضافے کے لئے کوشش کرنا ہوگی تاکہ زیادہ نہیں تو کم سے کم دنیا کی پہلی 100 جامعات میں پاکستان کا نام شمار ہو!